حوزہ نیوز ایجنسی؛ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر لوگوں کو حج کے لیے پکارا تو رب نے اس پکار کو قیامت تک کے انسانوں کے دلوں تک پہنچا دیا۔ آج بھی خانۂ کعبہ کی فضاؤں میں وہ صدا گونج رہی ہے؛ "لوگو! اپنے رب کے گھر کا رخ کرو!" مگر افسوس! آج لاکھوں مسلمان استطاعت رکھنے کے باوجود حج سے غفلت برت رہے ہیں۔ مال و دولت کی فراوانی، کاروبار کی وسعت، دنیوی سہولیات؛ سب کچھ حاصل ہے، مگر رب کے گھر جانے کی فرصت نہیں۔
رپورٹ کے مطابق، ایسے افراد کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے جو بظاہر مستطیع ہیں، مگر کبھی کاروباری مصروفیت، کبھی وقت کی کمی اور اکثر دنیوی لالچ کے باعث حج کو مؤخر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ حج جیسا عظیم فریضہ، جسے اسلام کا ستون قرار دیا گیا، ان کے لیے ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
اس موقع پر عازمینِ حج نے مولانا ذہین علی نجفی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "کاش ہم پہلے آ جاتے، یہاں آ کر احساس ہوا کہ آنے میں واقعی بہت دیر ہو گئی!"
ایک بزرگ حاجی نے کہا کہ"یہاں آ کر جو سکون، آنسو، اور قربتِ الٰہی محسوس ہوتی ہے، وہ پوری دنیا میں کہیں نہیں!"
ماہرینِ دینیات کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے تو اس میں سب سے پہلا حق اللہ کا ہے۔ حج کی فرضیت ایک ایسی آواز ہے جس پر لبیک کہنا ہر مستطیع مسلمان کا فرض ہے۔
علمائے کرام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ "حج کا سفر صرف مال کا نہیں، دل کا بھی امتحان ہے۔ جو رب کی پکار کو دنیاوی مصروفیات پر قربان کرتا ہے، وہ دراصل آخرت کی کامیابی کو خود ہی کھو دیتا ہے۔"
خانہ کعبہ سے ایک صدا آج بھی اُٹھ رہی ہے: "لبیک کہو! اپنے رب کو پہچانو! آجاؤ، دیر نہ کرو!"









آپ کا تبصرہ