حوزہ نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے جامعۃ الزہرا (س) کی استاد محترمہ اعظم ابوالحسنی نے کہا: انقلاب اسلامی ایران نے عورت کے علمی اور دینی مقام کے حوالے سے سوچ میں تبدیلی پیدا کی اور خواتین کے دینی تعلیمی نظام میں ایک بے مثال انقلاب برپا کیا۔
انہوں نے کہا: انقلاب سے قبل دینی مدارس عموماً مردوں کے لیے مخصوص تھے اور خواتین یا تو دینی علوم کی تحصیل سے یکسر محروم تھیں یا انتہائی محدود اور غیر رسمی تعلیم تک ہی ان کی رسائی تھی لیکن انقلاب اسلامی کے بعد خواتین کے دینی مدارس باقاعدہ اور وسیع پیمانے پر قائم کیے گئے جنہوں نے علمی، ثقافتی اور سماجی میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
اس حوزوی محقق نے کہا: انقلاب سے پہلے خواتین کی دینی تعلیم زیادہ تر غیر رسمی اور فقہ و اخلاق کے چند دروس تک محدود تھی لیکن انقلاب کے بعد خواتین کے لیے دینی تعلیم کو باقاعدہ حیثیت دی گئی اور مختلف تعلیمی مدارج کے ساتھ منظم انداز میں مدارس قائم کیے گئے۔ قم میں جامعۃ الزہرا (س) اور دیگر شہروں میں تخصصی مراکز وجود میں آئے جہاں فقہ، اصول، تفسیر، کلام، فلسفہ اور تبلیغ جیسے شعبوں میں تخصصی تعلیم دی جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: آج ہزاروں طالبات مختلف سطحوں پر تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور بعض نے اجتہاد اور فقہ کے اعلی دروس تک رسائی حاصل کر لی ہے جبکہ ماضی میں خواتین کی تعلیم زیادہ تر فقہ و اخلاق تک محدود تھی، آج خواتین کے دینی مدارس میں قرآن کی تفسیر، اسلامی فلسفہ، جدید کلام، علوم حدیث اور حتیٰ کہ بین الریاستی (بین شعبہ جاتی) تحقیقی سرگرمیاں انجام دی جا رہی ہیں۔ بعض مدارس تو بین الاقوامی مبلغات، حوزوی محققین اور جامعات کی اساتذہ کی تربیت کی جانب بھی پیش قدمی کر چکے ہیں۔
محترمہ ابوالحسنی نے کہا: آج خواتین کے دینی مدارس انقلاب اسلامی کے اہداف کی تکمیل کی علامت ہیں۔ ہزاروں حوزوی مبلغات ملک و بیرون ملک دینی تبلیغ اور شبہات کا جواب دینے میں سرگرم عمل ہیں۔ اسی طرح خواتین حوزوی محققین کی علمی کاوشیں کتابوں، تحقیقی مقالات اور حوزوی مقالات (تھیسس) کی شکل میں نمایاں ترقی کی حامل ہیں۔









آپ کا تبصرہ