حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملے میں ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کی ایک عمارت کو نشانہ بنایا گیا، تاہم اس حملے کے دوران براہ راست نشریات پیش کرنے والی خاتون اینکر سحر امامی نے مثالی جرأت اور پیشہ ورانہ وقار کا مظاہرہ کرتے ہوئے پروگرام جاری رکھا۔
اطلاعات کے مطابق، حملے نشریاتی ادارے کے سیاسی شعبے کی عمارت کے کچھ حصے کو نقصان پہنچا، جہاں سے اس وقت براہِ راست خبریں نشر کی جا رہی تھیں۔ حملے کے دوران سحر امامی ایک بیان پڑھ رہی تھیں جس میں صیہونی مظالم پر تنقید کی جا رہی تھی، لیکن حملے کے فوراً بعد وہ پھر سے نشر ہونے والے پروگرام میں لوٹ آئیں اور اپنے مشن کو جاری رکھا۔
اس حملے کے بعد سحر امامی نے نشریات میں واضح الفاظ میں کہا: "ہم اپنے کام کو جاری رکھیں گے۔ اس حملے کا نشانہ صرف ایک خبر نہیں، بلکہ آزادی اظہار رائے اور سچائی کی آواز تھی۔"
انہوں نے مزید کہا: "دشمن ایک بار پھر غلط فہمی کا شکار ہوا، وہ سمجھتا ہے کہ ہم ڈر جائیں گے، لیکن ہم سچ بولنے کے لیے کھڑے رہیں گے۔"
خاتون اینکر نے بین الاقوامی برادری اور ان میڈیا اداروں پر بھی تنقید کی جو آزادیِ صحافت کے دعوے تو کرتے ہیں، لیکن صحافیوں کی آواز کو دبانے پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، آخر عالمی برادری کیوں خاموش ہے؟ کیا صحافیوں کی آواز کو دبانا اور ان پر حملہ کرنا آزاد دنیا کی اقدار میں شامل ہے؟
یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ ایرانی صحافیوں، خاص طور پر خواتین کی صفِ اول میں موجود شخصیات نہ صرف پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے آگاہ ہیں بلکہ دشمن کے دباؤ کے باوجود پیغامِ مزاحمت کو بلند رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔









آپ کا تبصرہ