حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلہ میں مزید آیا ہے کہ "آئین پاکستان کا آرٹیکل 20 مجلس ماتم کی مکمل اجازت دیتا ہے، اگر ڈپٹی کمشنر مجلس ماتم سے روکے تو ڈپٹی کمشنر کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کریں اور مجلس ماتم کی اجازت حاصل کریں۔ NOC کے نام پر مجلس ماتم سے روکنا غیر قانونی عمل اور آئین کے آرٹیکل 20 کی خلاف ورزی ہے"۔
رپورٹ کے مطابق ایک درخواست گزار نے پچھلے سال عشرہ محرم الحرام منعقد کروایا تو متعلقہ پولیس نے درخواست گزار پر بغیر اجازت مجلس و عشرہ محرم الحرام منعقد کرنے پر مقدمہ درج کر دیا۔
سال 2023 میں درخواست گزار نے متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے پاس مجلس و عشرہ کے لیے درخواست دی جسے ڈپٹی کمشنر نے خارج کرتے ہوئے اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
درخواست گزار نے ڈپٹی کمشنر کے آرڈر کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔ جس پر معزز جسٹس شمس محمود مرزا نے سرکار (سرکاری وکیل) سے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت آپ یہ مجلس و عشرہ نہیں ہونے دے رہے؟۔ جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ "اس خاتون پر پچھلے سال بھی مجلس کروانے کی وجہ سے مقدمہ درج ہوا"۔ دوسرا یہ کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ نے ایک پالیسی بنا رکھی ہے کہ جس مجلس کے بارے میں ماضی میں کوئی تاریخ نہ ملتی ہو ایسی کوئی نئی مجلس منعقد نہیں ہو سکتی۔ صرف جو مجالس ماضی میں چلتی آرہی ہیں وہی ہو سکتی ہیں نئی مجالس یہ عزا کے پروگرام نہیں ہو سکتے۔
جس پر جج صاحب نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 20 تمام شہریوں کو اپنے مذہب کی ترویج، تبلیغ اور اشاعت کا بنیادی حق دیتا ہے۔
ہوم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بنائی گئی کوئی بھی ایسی پالیسی جو شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہو کبھی قابل قبول نہیں ہوسکتی، اس کے علاوہ ڈپٹی کمشنر کی طرف سے جاری کئے گئے آرڈر میں ایسی کسی پالیسی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی درخواست گزار کو منع کرنے کی کوئی معقول وجہ بیان کی گئی ہے لہذا تمام حالات واقعات کومد نظر رکھتے ہوئے درخواست گزار کے موقف کو تسلیم کر لیا گیا اور اسے بغیر کسی لائسینس اور اجازت کے عشرہ محرم الحرام منعقد کرنے کی اجازت دے دی گئی۔









آپ کا تبصرہ