حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے محرم الحرام 1447ھ بمطابق 2025ء کے آغاز پر علماء و ذاکرین، خطباء و واعظین، بانیان مجالس، لائسنسداران، عزاداران، ماتمی و نوحہ خواں حضرات کے نام پیغام میں کہا: آپ آگاہ ہیں کہ ماضی میں نواسہ پیغمبر اکرم(ص)، امام عالی مقام کی عزاداری کے سبب جہاں اہل بیت رسول(ص) کے ساتھ عقیدت میں اضافہ ہوا۔ وہیں تمام مسالک و مکاتب کے درمیان محبت و بھائی چارے کو فروغ حاصل ہوا۔
انہوں نے مزید کہا: یہ صورتحال متعصب اور تنگ نظر انتہا پسند عناصر کے لیے ناقابل برداشت بن گئی اور انہوں نے حُب حسین (ع) پر مشتمل اس حَسین کلچر کو ختم کرنے کے ناپاک منصوبے بنائے جس کے تحت فرقہ واریت پھیلائی گئی، ایک مخصوص گروہ سے فرقہ واریت پھیلانے کے لیے بہت سے کام لئے گئے اس طویل فرقہ واریت کو تشددمیں تبدیل کرادیا گیا اور اس خود ساختہ بہانوں کے ذریعہ عزاداری کو سنگین سیکورٹی کے سائے میں منانے کا سلسلہ شروع کرایا گیا ۔
علامہ ساجد نقوی نے کہا: جابرانہ احکامات کے تحت نئے جلوس ہائے عزا نکالنے کا سلسلہ روکا گیا۔ گذشتہ سالوں میں تو چند قدم آگے بڑھا دئیے گئے اب تو عزائے حسین کا کوئی جلوس نکالنے پر غیر قانونی جلوس کا پرچہ بھی درج کیا جاتا ہے۔ فورتھ شیڈول میں ڈالنے، مجالس عزاء میں لاوڈ اسپیکر پر بلاجواز پابندی عائد کرنے، مجالس کے اجازت نامے کی شرط عائد کرنے، مجالس اور جلوسوں کا دورانیہ محدود کرنے، جلوس عزاء محدود یا تبدیل کرنے، جلوسوں کے لائسنس منسوخ کرنے، علماء و ذاکرین کی زبان بندیاں، جلوسوں اور مجالس میں عوام کی شرکت کو روکنے اور اس قسم کے دیگر ماورائے آئین و قانون اقدامات سے عزاداری سید الشہداء(ع) کو محدود کرنے کا منصوبہ واضح ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا: آئین پاکستان کا آرٹیکل 20 مذہبی آزادیوں کی ضمانت فراہم کرتا ہے لہذا اس ماحول میں ملک کے اطراف و جوانب سے انتظامیہ کا اوپر سے حکم کا بہانہ تراش کر عزاداری سے روکنا ناقابل قبول ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کو اپنے بنیادی، آئینی اور قانونی حق عزاداری سے دستبردار ہونے کے حوالے سے کوئی سی تحریر دینے سے گریز کریں۔
قائد ملت جعفریہ نے کہا: آپ آگاہ ہیں کہ ہم نے آپ کے تعاون سے اپنی قومی و ملی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ایسے تمام منصوبوں کا بھرپور مقابلہ کیا اور ملک بھر میں مختلف رکاوٹوں کو دور کیا گیا جس کی تفصیلات مختلف ادوار میں مختلف ذرائع سے عوام تک پہنچائی گئیں۔ عزاداری کے خلاف کوئی سرکاری قانون منظور نہیں ہونے دیا گیا، منسوخ شدہ جلوسوں کو بحال کرایا گیا۔ جہاں مجلس روکی گئی تو وہاں مجلس منعقد کرائی گئی اور عوام سے دوٹوک انداز میں کہا کہ مجلس کے لیے کسی قسم کی اجازت ضروری نہیں۔ حکومت کو متعدد بار متوجہ کیا گیا کہ وہ مجالس و جلوس ہائے عزا کو ایس او پیز سے متثنیٰ رکھے۔
آخر میں علامہ ساجد نقوی نے کہا: ان حالات میں علماء و ذاکرین، واعظین اور عزاداروں، ماتمیوں اور نوحہ خوانوں کے لیے ضروری ہے عزاداری کو اتحاد کے ساتھ احسن طریقے سے وحدت کی فضاء میں منعقد کریں، تشیع کے روشن چہرے اور عقائد تشیع کو مصفی و منقی انداز میں پیش کریں، عزاداری آزادی سے منانے کے لیے متحد ہو کر طاقتور آواز بلند کریں، اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرکے حقوق سلب کرنے کی تمام سازشوں کو ناکام بنائیں، سیدالشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی سیرت، اقوال، فرامین اور خصائل سے سبق سیکھیں اور اپنی زندگیوں کو امام حسین علیہ السلام کی سیرت کے تحت ہی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔









آپ کا تبصرہ