اتوار 20 جولائی 2025 - 12:36
امام مہدی (عج) کی غیبت کی کیفیت

حوزہ/ سوال یہ ہے کہ حضرت صاحب العصر والزمان عجل‌ اللہ‌ تعالی‌ فرجہ‌ الشریف کی غیبت کی نوعیت کیا ہے؟ کیا ان کا جسمِ مبارک لوگوں کی نظروں سے غائب ہے؟ یا وہ لوگوں کے درمیان موجود ہیں لیکن پہچانے نہیں جاتے؟

حوزہ نیوز ایجنسی | سوال یہ ہے کہ حضرت صاحب العصر والزمان عجل‌ اللہ‌ تعالی‌ فرجہ‌ الشریف کی غیبت کی نوعیت کیا ہے؟ کیا ان کا جسمِ مبارک لوگوں کی نظروں سے غائب ہے؟ یا وہ لوگوں کے درمیان موجود ہیں لیکن پہچانے نہیں جاتے؟

اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ کسی انسان کا جسمانی طور پر نظروں سے اوجھل ہونا یا اس کے افعال و حرکات کا عام لوگوں سے مخفی رہنا، انبیاء، اولیاء اور مومنینِ خالص کی تاریخ میں ایک مسبوق و معروف امر ہے، اور متعدد بار یہ واقعہ رونما ہو چکا ہے۔

مثال کے طور پر قرآنِ مجید کی سورہ اسراء کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًا﴾ (الاسراء، آیت ۴۵)

"اور جب آپ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو ہم آپ اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ایک چھپا ہوا پردہ حائل کر دیتے ہیں۔"

ظاہر آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کی تلاوت فرماتے، تو خداوند متعال آپ کو ان کفار سے چھپا دیتا جو آپ کو اذیت پہنچانا چاہتے تھے۔

تفاسیر میں آیا ہے کہ خداوند متعال نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابو سفیان، نضر بن حارث، ابو جہل اور ام جمیل (زوجۂ ابو لہب) جیسے افراد سے مخفی رکھا۔ وہ لوگ گزرتے اور آپؐ کو دیکھ نہ پاتے۔ (رک: طبرسی، مجمع البیان؛ سیوطی، الدر المنثور)

ابن ہشام نے اپنی "سیرت" میں نقل کیا ہے کہ ایک موقع پر ام جمیل رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلاش کر رہی تھی، لیکن آپؐ اس کے بالکل قریب موجود ہونے کے باوجود اسے دکھائی نہ دیے۔ آخر میں پیغمبرؐ نے فرمایا: «لَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ بِبَصَرِهَا عَنِّي»

"یقیناً اللہ نے اس کی نگاہ کو مجھ سے روک لیا۔"

اسی طرح جب آپؐ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو کفار نے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا، تاکہ آپ کو قتل کر دیں۔ لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بستر پر لٹایا اور خود باہر آئے، تھوڑی سی خاک کفار کے سروں پر ڈالی اور سورۂ یٰس کی ابتدائی آیات کی تلاوت کی: ﴿یٰس وَالْقُرْآنِ الْحَکِیمِ... فَهُمْ لَا یُبْصِرُونَ﴾

آپؐ ان کے درمیان سے گزر گئے اور کسی نے آپ کو نہ دیکھا۔ (رک: ابن ہشام، ابن سعد، ابن اثیر)

اسی طرح سورہ یٰس کی آیت ۹: ﴿وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ أَیْدِیهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَا یُبْصِرُونَ﴾

"اور ہم نے ان کے آگے اور پیچھے ایک دیوار کھڑی کر دی اور انہیں ڈھانپ دیا، تو وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہ رہے۔"

اس آیت کی تفاسیر میں بھی اسی طرح کی روایات موجود ہیں کہ کس طرح خدا نے اپنے نبی کو کفار کی نگاہوں سے اوجھل رکھا۔ (تفاسیر: طوسی، طبرسی، سیوطی)

ائمہ معصومین علیہم السلام کی حیاتِ مبارکہ میں بھی ایسے شواہد موجود ہیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام کو عبد الملک بن مروان کے کارندے تلاش کرتے رہے لیکن وہ انہیں نہ پا سکے۔ اس واقعے کو نہ صرف شیعہ علماء، بلکہ اہل سنت کے مشہور مؤرخین جیسے ابن حجر ہیتمی نے بھی نقل کیا ہے۔ (الصواعق المحرقہ، ص 200)

ان تمام مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی شخصیت کا جسمانی طور پر غائب ہو جانا اور لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو جانا، دینی متون میں ایک مستند اور سابقہ حقیقت ہے۔

تاہم صرف یہ کہ کوئی انسان جسمانی طور پر موجود ہو لیکن اس کا نام، شناخت اور حیثیت دوسروں پر واضح نہ ہو — یہ بالکل فطری اور عام سی بات ہے۔ ہم روزمرہ کی زندگی میں متعدد ایسے افراد دیکھتے ہیں جو ہمارے سامنے ہوتے ہیں مگر ہم ان کی شناخت سے ناآشنا رہتے ہیں۔

لہٰذا حضرت ولیّ عصر عجل‌ اللہ‌ فرجہ کی غیبت، دو پہلوؤں پر مشتمل ہے: ایک تو جسمانی غیبت، اور دوسرا ان کی شناخت کا پوشیدہ رہنا۔ بعض مواقع پر لوگ انہیں دیکھتے ہیں لیکن پہچان نہیں پاتے، اور بعض مواقع پر وہ مکمل طور پر نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک وقت میں کچھ لوگ انہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی شناخت سے غافل ہوتے ہیں، اور دوسرے لوگ انہیں سرے سے دیکھ ہی نہیں پاتے۔

یہ نکتہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جسمانی غیبت، عام اسباب سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے خارقِ عادت اور معجزہ درکار ہوتا ہے۔ لیکن شناخت کا مخفی رہنا ایک فطری امر ہے، جو عام حالات میں بھی پیش آ سکتا ہے۔ البتہ اگر یہ کیفیت طویل مدت تک باقی رہے اور کوئی شخص ان کی شناخت کی طرف متوجہ نہ ہو، تو یہ امر بھی کسی غیبی تدبیر اور روحانی تصرف کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

اور چونکہ امام زمانہ عجل‌ اللہ‌ فرجہ خدا کے ولیّ اور منصوص من اللہ ہیں، اس لیے خدائے قادر و متعال ان کے تحفظ کے لیے تمام معمولی و غیر معمولی اسباب خود یا ان کے توسط سے مہیا فرماتا ہے، تاکہ اپنی مشیت اور اپنے ولی کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

جاری یے۔۔۔

حوالہ: کتاب: پاسخ به ده پرسش پیرامون امامت؛ مؤلف: آی

ت‌الله صافی گلپایگانی

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha