منگل 22 جولائی 2025 - 23:23
ملت ایران عزت، عقلانیت اور اسلامی ثقافت سے ہرگز دستبردار نہیں ہو گی / قومی وحدت کی قدر کریں

حوزہ / حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے حزب مؤتلفہ اسلامی کے اراکین سے ملاقات میں کہا: ہم ایسی ثقافت اور فکر کے وارث ہیں جو نہ صرف ماضی میں درخشاں رہی بلکہ آئندہ بھی رہنمائی کرنے والی ہے۔ یہ ملت عزت، عقلانیت اور ثقافت کے موقف سے ہرگز دستبردار نہیں ہو گی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے حزب مؤتلفہ اسلامی کے اراکین سے ملاقات میں پیش کی گئی رپورٹ اور انجام دی گئی خدمات پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ کوششیں درگاہ الٰہی میں مقبول ہوں اور آئندہ نسلوں کے لیے بہتر خدمت کی توفیق حاصل ہو۔

انہوں نے ایامِ عزاداری سید و سالارِ شہیدان کا ذکر کرتے ہوئے واقعۂ کربلا کی عالمانہ اور دقیق معرفت کی ضرورت پر تاکید کی اور کہا: واقعہ کربلا ہمارے لیے ایک بے نظیر نمونہ ہے اور ہمیں اس کی حقیقت پر درست توجہ رکھنی چاہیے۔ گریہ اور عزاداری اپنی جگہ محفوظ ہے لیکن جو چیز واقعۂ کربلا کو نمونہ اور جاوداں بناتی ہے وہ اس کا علمی اور معرفتی پیغام ہے۔ یہ پیغام صاف کہتا ہے کہ مقصد وسیلے کو جائز نہیں بناتا: «مَنْ حَاوَلَ أَمْراً بِمَعْصِیةِ اللّه کَانَ أَفْوَتَ لِمَا یرْجُو وَ أَسْرَعَ لِمَجِی‏ءِ مَا یحْذَر»؛ اگر کوئی شخص کسی مقصد تک پہنچنا چاہتا ہے تو باطل راستے سے نہیں پہنچ سکتا اور اگر مقصد الٰہی ہے تو اس تک رسائی بھی صراطِ مستقیم سے ہی ہونی چاہیے۔

آیت اللہ جوادی آملی نے کہا:خلفاء بنی امیہ نے برسوں تک جبری فکر کو عام کرنے کی کوشش کی تاکہ اپنی تاریخی جرائم کو ارادۂ الٰہی سے منسوب کریں۔ اسی لیے ابن زیاد نے واقعۂ عاشورا کے بعد حضرت زینب علیہا السلام سے کہا: «کیف رأیت صنع الله بأخیک؟» یعنی جو کچھ خدا نے تمہارے بھائی کے ساتھ کیا، تم نے اسے کیسا پایا؟ ابن زیاد نے اسے کامِ الٰہی سمجھا، نہ کہ شیطانی فعل۔ حضرت زینب علیہا السلام نے اس جبری فکر کا مقابلہ کیا اور جواب دیا: «ما رأیت إلا جمیلا» یعنی ان لوگوں کو تو تم نے قتل کیا لیکن خدا نے ہم سے جو کہا کہ ظلم کے خلاف قیام کرو، ہم نے قیام کیا اور میں اس میں سوائے حسن و جمال کے میں کچھ نہیں دیکھتی۔ یہ جملہ ایک سیاسی، معرفتی اور توحیدی بیان تھا، نہ صرف ایک جذباتی عبارت۔

انہوں نے اپنے گفتگو کے ایک اور حصے میں قومی وحدت پر زور دیتے ہوئے کہا: قومی وحدت ایک بڑی نعمت ہے جس کی قدر کرنی چاہیے اور اس کے تحفظ کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ یہی وحدت تمام منصوبہ بندیوں اور اقدامات کی بنیاد ہونی چاہیے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha