حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں "لمبی امیدوں کے نقصان" کے بارے میں جو نکات بیان فرمائے ہیں، وہ اہل علم و معرفت کے لیے حاضر خدمت ہیں:
حکمت ۳۶:
(مَنْ أَطَالَ الْأَمَلَ، أَسَاءَ الْعَمَلَ)
"جس نے اپنی امیدوں کو طول دیا، اُس نے اپنے عمل کو بگاڑ لیا۔"
تشریح: لمبی امیدیں اور بُرے اعمال
امام علی علیہ السلام نے اپنے اس مختصر مگر عمیق جملے میں فرمایا ہے کہ: "جو شخص لمبی لمبی امیدیں باندھتا ہے، اُس کے اعمال بگڑ جاتے ہیں۔"
یقیناً، امید اور آرزو انسان کے اندر حرکت و عمل کا محرّک بنتی ہیں۔
مثلاً: وہ نوجوان جو بڑے علمی مقام تک پہنچنے کی آرزو رکھتا ہے، علم حاصل کرنے کی کوششوں میں دن رات مصروف رہتا ہے۔
وہ کسان جو زرخیز کھیتوں اور بھرپور باغات کی آرزو رکھتا ہے، محنت و مشقت سے زمین کو آباد کرتا ہے۔
وہ ماں جو یہ چاہتی ہے کہ اُس کا بچہ جوان ہو کر اُس کا سہارا بنے، وہ اس کی تربیت اور پرورش میں دن رات کوشاں رہتی ہے۔
اسی حقیقت کی طرف رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حدیث میں بھی اشارہ ہے: "امید، میری امت کے لیے رحمت ہے، اگر یہ نہ ہوتی تو نہ کوئی ماں اپنے بچے کو دودھ دیتی، نہ کوئی باغبان درخت لگاتا۔" (بحارالانوار، ج ۷۴، ص ۱۷۵)
لیکن، جب انسان امید اور آرزو میں اعتدال کی حد کو پار کر لیتا ہے اور ان چیزوں کی تمنا کرتا ہے جو نہ ضروری ہیں، نہ قابل حصول؛ تب وہ صرف انہیں پانے کی فکر میں لگ جاتا ہے اور ہر چیز کو نظرانداز کرنے لگتا ہے۔
ایسے انسان: آخرت کو فراموش کر دیتا ہے، غلط اور ناجائز طریقے اپناتا ہے،اور دنیا کے سامنے ذلت سے جھکتا ہے، یہی وہ انجام ہے جسے "سوء العمل" یعنی بدعملی کہا گیا ہے، اور امامؑ نے اپنے جملے میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا۔
حالانکہ اگر انسان اپنی امیدوں کو محدود کر لے، اور صرف ضرورت بھر پر قناعت کرے، تو نہ صرف وہ اپنی آخرت کے لیے نیکیوں کا ذخیرہ جمع کر سکتا ہے، بلکہ حرام سے بھی بچ سکتا ہے اور عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے۔
الٰہی نصیحت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو:کتاب "کافی" کی ایک حدیثِ قدسی میں ہے کہ خداوندِ عالم نے حضرت موسیٰ بن عمرانؑ سے فرمایا:"اے موسیٰ! دنیا میں اپنی امیدوں کو طول مت دو، کیونکہ یہ دل کو سخت بنا دیتی ہیں، اور جو دل سخت ہو جائے وہ مجھ سے دور ہو جاتا ہے۔" (کافی، ج ۲، ص ۳۲۹)
یقیناً دل کی سختی، خدا کے ذکر، موت اور قیامت کی یاد کو بھلانے کا نتیجہ ہے۔
جو لوگ لمبی امیدوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں، وہ نہ خدا کو یاد رکھتے ہیں، نہ موت اور آخرت کو۔
اولیائے خدا اور مختصر آرزوئیں:خدا کے نیک بندوں کی امیدیں بہت مختصر ہوتی تھیں۔ وہ ہمیشہ آخرت کے سفر کے لیے تیار رہتے تھے، اور ہر لمحہ اس بات کا امکان رکھتے تھے کہ ابھی انہیں دنیا سے کوچ کا حکم مل جائے گا۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بہت معنادار حدیث میں فرمایا:"قسم اُس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے! کبھی میری آنکھیں جھپکتی ہیں تو میں گمان کرتا ہوں کہ اُن کے دوبارہ کھلنے سے پہلے ہی میری روح قبض کر لی جائے گی۔" (بحارالانوار، ج ۷۰، ص ۱۶۶)
یعنی یہ گمان، دراصل ہمیشہ موت کے لیے تیار رہنے کی علامت ہے۔
لمبی امیدیں اور نفس کی پیروی: دو مہلک خطرات
ایک مشہور حدیث جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام علیؑ دونوں سے منقول ہے، فرماتی ہے:"تمہارے لیے سب سے زیادہ خطرناک چیزیں یہ دو ہیں:
(1) نفس کی خواہشات کی پیروی،
(2) اور لمبی لمبی امیدیں۔
کیونکہ نفس کی پیروی انسان کو حق سے روک دیتی ہے،
اور لمبی امیدیں، آخرت کو بھلا دیتی ہیں۔" (کافی، ج ۲، ص ۳۳۵)
قرآن بھی خبردار کرتا ہے: قرآن مجید بھی طولِ امل (لمبی امید) کو شیطان کا ایک ہتھیار قرار دیتا ہے: "شیطان نے کہا: میں تیرے بندوں سے اپنا ایک خاص حصہ ضرور حاصل کروں گا، انہیں گمراہ کروں گا، ان کے اندر جھوٹی امیدیں ڈالوں گا، اور ان سے فریب دوں گا..." (سورہ نساء، آیات ۱۱۸-۱۲۰)
شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار یہی ہوتا ہے کہ انسان کو جھوٹی اور لمبی امیدوں میں لگا کر، اُسے فریب دیتا ہے۔
نتیجہ:
جو شخص اپنی خواہشات اور امیدوں کو بے لگام چھوڑ دیتا ہے، وہ: آخرت کو بھلا دیتا ہے، دنیا کو مقصدِ زندگی بنا لیتا ہے، اور بالآخر گناہوں میں ڈوب جاتا ہے۔ جبکہ مومن وہ ہے جو امید رکھتا ہے، لیکن قناعت اور آمادگیِ مرگ کے ساتھ۔ اسے معلوم ہے کہ ہر سانس، آخری ہو سکتی ہے، اسی لیے اُس کے عمل میں اخلاص ہوتا ہے، اور اُس کا دل نرم رہتا ہے۔









آپ کا تبصرہ