اتوار 27 جولائی 2025 - 09:49
کربلا؛ نفس مطمئنہ اور نفس امارہ کے درمیان جنگ کا نام ہے: مولانا سید منظور علی نقوی

حوزہ/مولانا سید منظور علی نقوی امروہوی نے حرم مطہر حضرت معصومہ قم سلام اللہ میں ایک مجلسِ عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کو سمجھنے کے لیے تاریخ کے کچھ کردار پر ہماری نگاہ ہونی چاہیے کہ جو ہمیں اس بات کی جانب واضح ثبوت دے رہے ہیں کہ جو نفس مطمئنہ رکھتے ہیں وہ کن صفوں میں نظر آتے ہیں اور جو نفس امارہ رکھتے ہیں وہ کہاں ہوتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا سید منظور علی نقوی امروہوی نے حرم مطہر حضرت معصومہ قم سلام اللہ میں ایک مجلسِ عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کو سمجھنے کے لیے تاریخ کے کچھ کردار پر ہماری نگاہ ہونی چاہیے کہ جو ہمیں اس بات کی جانب واضح ثبوت دے رہے ہیں کہ جو نفس مطمئنہ رکھتے ہیں وہ کن صفوں میں نظر آتے ہیں اور جو نفس امارہ رکھتے ہیں وہ کہاں ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ زبیر بن عوام کا کردار اور کربلا کے اصحابِ امام حسین علیہ السلام (خصوصاً حضرت مسلم بن عقیل، حضرت حبیب بن مظاہر، حضرت حر بن یزید ریاحی، وغیرہ) کے کردار میں تقابلی جائزہ ایک فکری و اخلاقی موازنہ ہے۔ اگرچہ زبیر بن عوام کا تعلق صدرِ اسلام کے عظیم صحابہ میں ہوتا ہے اور اس کا مقام بدر، احد، خندق، اور دیگر غزوات میں نمایاں رہا، لیکن اس کی زندگی کا آخری مرحلہ (یعنی واقعہ جمل میں شرکت) ایک پیچیدہ اور اختلافی رخ اختیار کرتا ہے۔ اسی لیے اس کا موازنہ کربلا کے وفادار اصحاب سے ایک تنقیدی زاویہ رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی خدمات اسلام کے اولین مجاہد، رسول اللہؐ کے قریبی صحابی، عشرۂ مبشرہ میں شامل۔ بعض (مثلاً حبیب بن مظاہر) بھی اصحابِ رسولؐ تھے، یا امام علیؑ کے وفادار۔وفاداری ابتدا میں حق کے ساتھ، مگر بعد میں خلافتِ علیؑ کے خلاف صف آرا۔ سیاسی موقف جنگِ جمل میں حضرت علیؑ کے خلاف صف آرا ہوئے، اگرچہ کہا جاتا ہے کہ جنگ سے پہلے نادم ہو گئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آخری کردار حضرت علیؑ کے ساتھ سابقہ تعلقات کے باوجود جنگ میں شریک ہوئے، بعد ازاں جنگ چھوڑ دی اور قتل ہو گئے۔ رجوع حق کی طرف میدان جنگ میں حضرت علیؑ کے کلام سے متأثر ہو کر واپس لوٹے، لیکن واپسی کے دوران قتل ہو گئے۔زبیر بن عوام کی زندگی ایک مجاہد، صادق صحابی اور بعد ازاں ایک متردد سیاسی کردار کی عکاسی کرتی ہے، جس میں ابتدا نیکی کی ہے مگر انجام الجھن کا شکار ہوا۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ کربلا کے اصحاب کا کردار مکمل یقین، قربانی، وفاداری اور حق پر ثابت قدمی کا مظہر ہے، کہا کہ زبیر اور حضرت حر کا کردار ایک نکتے پر ملتا ہے: دونوں نے اپنے ماضی کے فیصلے پر رجوع کیا۔ فرق یہ ہے کہ حر نے بروقت توبہ کی اور شہادت پا کر تاریخ میں عزت پائی، جبکہ زبیر کی واپسی مؤخر ہوئی اور وہ اپنے سابقہ فیصلے کا مکمل کفارہ ادا نہ کر سکا۔ ایسے بہت سے کردار نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنے کردار سے ہمیں راہ حق حاصل کرنے کا راستہ ملتا ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ میں عبیداللہ بن حر جوفی بھی ملتا ہے جو دینداری کے پرچم کو بلند کیئے ہوئے تھے مگر امتحان کی منزل پر آکر منحرف نظر آیا اور نفس نے اجازت نہیں دی اور وہیں وھب کلبی نامی جوان جو اسلام پر نہیں تھا مگر حق کی راہ پر انتی تیزی میں نظر آیا جو ان سے اگے نظر آیا جو سالوں دینداری کا پرچم تھامے ہوئے تھے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha