حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، "ثقافتی میدان میں جاری میڈیا وار میں ہم ایسے مظاہر کا سامنا کرتے ہیں جیسے نئی قدروں کی پیدائش، نئی ثقافتی معیارات کی تخلیق اور پرانی ثقافتی قدروں کی تخریب یا انہیں بالکل حذف کر دینا وغیرہ۔"
میڈیا خواندگی کی مدرسہ، محققہ اور ادارہ "عصرِ ذہانت تھنک ٹینک" کی سربراہ ڈاکٹر معصومہ نصیری، نے مزید کہا: یہ نئی پیدا شدہ قدریں معاشرے کی دینی و ثقافتی اقدار کے مقابل ایک نیا معیار بن کر سامنے آتی ہیں جیسے اسلامی معاشرہ اور ان دونوں کے درمیان ایک ڈبل رول قائم کیا جاتا ہے۔ جہاں مخاطب کو مجبور کیا جاتا ہے کہ یا تو نئی ثقافتی قدریں قبول کرے یا پرانی دینی و ثقافتی قدروں سے وابستہ رہے لیکن اب ان قدروں کو دقیانوسی، پسماندگی اور پرانی قدروں سے وابستگی جیسے القابات دے کر ان کی ساکھ کو متاثر کیا جاتا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ، ثقافتی اور دینی میدان میں میڈیا وار کی ایک اور جہت یہ ہے کہ پرانی قدروں کی ساکھ کو ختم کر کے نئی قدروں کو نہ صرف نمایاں کیا جاتا ہے بلکہ انہیں بلند و بالا اور مثالی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ تبدیلیاں میڈیا جنگ کے ثقافتی اثرات کی کلیدی جہات میں سے ہیں جن پر توجہ دینا ضروری ہے۔
یونیورسٹی کی اس استاد اور ثقافتی امور کی تجزیہ نگار نے مزید کہا: بنیادی طور پر ثقافت کے میدان میں میڈیا جنگ، سیاست کے میدان میں جاری جنگ سے مفہوم و ماہیت کے لحاظ سے بالکل مختلف ہے۔
ہم نے پچھلے برسوں میں واضح طور پر دیکھا کہ دین اور اس سے متعلقہ مفاہیم اس میڈیا جنگ کا مرکزی نشانہ بنے ہیں، جنہیں مسخ کرنے اور اسٹکر لگانے کے ذریعے ہدف بنایا گیا تاکہ ان کی ساکھ کو گرا کر ایک نیا، استحالہ شدہ اور مسخ شدہ دین پیش کیا جا سکے۔ مثلاً ایسی عبارات جیسے: "دل پاک ہو تو کافی ہے" یا "بے حجاب بھی متدین ہو سکتا ہے"۔ یہ سب دین کی سادہسازی اور تحریف کی مثالیں ہیں جنہیں اس میڈیا وار میں فروغ دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا: ثقافت اور روایتی قدروں کی سادہسازی اس انداز میں انجام دی جا رہی ہے کہ یہ قدریں موجودہ دور کے انسان کے لیے رکاوٹ اور بوجھ کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں آزادانہ اور غیر شرعی تعلقات جیسے مظاہر کو عام کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اس کے مقابلہ میں میڈیا خواندگی ہمیں اس سمت لے جاتی ہے کہ ہم ہر قسم کے میڈیا مواد، چاہے وہ تفریح ہو یا کسی خبر کے بارے میں۔ یہ بنیادی سوال کریں کہ "یہ مواد کس قسم کی معلومات کو تشکیل دیتا ہے اور کن قدروں کو تباہ کرتا ہے؟" والدین کو بھی چاہیے کہ اسی باشعور زاویے سے اپنے میڈیا انتخاب کو خاندان میں ایک عملی نمونہ بنائیں۔ اثراندازی کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے میڈیا استعمال کا ایک واضح لائحہ عمل ہو اور ہم محض اطلاعات کے سیلاب میں ایک غیر فعال صارف نہ بنیں۔









آپ کا تبصرہ