تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی I سلطانِ خراسان، شمسُ الشموس، انیسُ النفوس، غریبُ الغرباء، معینُ الفقراء، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی شخصیت عالمِ اسلام کے لیے محتاجِ تعارف نہیں ہے، لیکن آپ کی زندگی کے نقوش اس دور کی سیاسی حیات میں کس قدر مفید ہیں، اس کا اندازہ آپ کی ولیعہدی کے سیاسی پس منظر کی وضاحت سے عیاں ہو سکتا ہے۔
مامون رشید نے آپ کو ولیعہدی دینے کے لیے مدینہ سے خراسان کیوں بلایا؟ اس کے پیچھے کیا راز تھا؟
عصرِ رواں میں ملکِ عزیز کی سیاسی فضا جس طرح مسموم آندھیوں میں تبدیل ہو رہی ہے، بدلہ کا آتش فشاں روشن ہے۔ سیاست میں عداوت، عدالت میں عداوت، صحافت میں عداوت۔ منصف ہی مجرم بن رہا ہے اور مجرم بھی منصف بننا چاہتا ہے۔ حاکم ہی قاتل ہو رہا ہے۔ قاتل و زناکار افراد کے گلے میں جیت کی مالا پہنائی جا رہی ہے، جیسے کبھی خلافت نے خالد بن ولید کے ماتھے پر "سیف الاسلام" کا خطاب چسپاں کیا تھا، جب اس نے مالک بن نویرہؓ کو قتل کیا اور ان کی زوجہ کے ساتھ بدسلوکی کی۔
شاید تاریخ مسلمانوں سے چن چن کر بدلہ لے رہی ہے۔ بہر کیف، سرِدست یہ سوال ذہن میں گردش کرتا ہے کہ اس وقت کے حالات ہم سے کیا تقاضا کرتے ہیں؟ میدانِ سیاست میں اتریں تو خیانتیں دامن گیر ہوتی ہیں، دین رخصت ہو جاتا ہے، رشوت کا بازار گرم ہوتا ہے، حلال و حرام کی تمیز سلب ہو جاتی ہے۔ اور اگر سیاست سے دامن بچائیں تو اصل دین کو خطرہ لاحق ہے۔ دینی عمارتوں، دینی اداروں، دینی مدرسوں اور دین کی در و دیوار کو منہدم کرنے کی سازشوں کا سامنا ہے۔ تو ایسی صورت میں کیا کریں؟
ویسے تو ہر شخص کا اپنا اپنا زاویۂ نظر ہے کہ اس سوال کے جواب میں عملی قدم اٹھائے، مگر جن کے پاس عصمتوں کی تاریخ کا سرمایۂ فکری ہر دور کے لیے مشعلِ راہ ہو، ان کو کسی غیر کے درِ سیاست پر دستک دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں، اگر ہم امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے اس مختصر سے عرصے کی حکمتوں کو ملاحظہ کریں تو مامون کی سیاست کا جنازہ نکلتا نظر آئے گا۔ اور اس دور میں بھی مامون کی شاطرانہ چالیں چلی جا رہی ہیں، لہٰذا سلطانِ خراسان کی حکمتوں کے چشمۂ شیریں سے فیضیاب ہونا ہر ذی شعور کے لیے ضروری ہے۔ جب جب امت شعور کی شاہراہوں پر شاہِ نجف اور ان کی معصوم نسلوں کا دامن تھامے گی، منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گی۔
جن وجوہات کی بنا پر مامون امام کو ولیعہد بنانا چاہتا تھا، ان میں سے کچھ کو ہم خلاصتاً ذکر کرتے ہیں، جنہیں رہبر معظم نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے:
وجوہاتِ ولیعہدی:
نمبر 1:
مامون چاہتا تھا کہ امام کو مدینہ سے بلا کر حکومت کا ولیعہد بنا دے تاکہ امامت کو میدانِ قداست سے نکال کر میدانِ سیاست میں لے آئے، اور عوام تک یہ پیغام پہنچ جائے کہ اہلِ بیتؑ (نعوذباللہ) حکومت سے دور رہنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں، اور موقع ملتے ہی حکومت کے تخت پر قدم زن ہو جاتے ہیں۔
اس فکر کا سدِّ باب امام نے مدینہ سے چلتے وقت کر دیا تھا کہ حکومت کی نیت اچھی نہیں ہے، یہ سفر، سفرِ موت ہے۔ امام نے دورانِ طوافِ وداع بھی اپنے چاہنے والوں کو مامون کی بدنیتی سے آگاہ کر دیا تھا تاکہ چاہنے والوں میں کسی طرح کی کوئی بدگمانی نہ پیدا ہو۔
نمبر 2:
ولیعہدی کے ذریعہ ناجائز اور غاصب خلافتوں کی تائید ہو جائے گی۔ اگر یہ خلافت باطل ہے، جیسا کہ شیعہ اور علوی حضرات اس عقیدہ پر متفق ہیں، تو امامؑ کا ولیعہد بننا اس کو جواز کا لباس پہنا دے گا۔
اس سیاست کو امام نے اس طرح ناکام بنایا کہ مقامِ مرو میں اس پیشکش کو سختی سے رد کر دیا۔ اور اس کی خبر تیزی سے پوری سلطنت میں پھیل گئی۔ یہاں تک کہ فضل بن سہل خراسانی کہتا ہے: "میں نے کبھی بھی خلافت کو اس قدر رسوا ہوتے نہیں دیکھا کہ مامون ولیعہدی کی پیشکش کر رہا تھا اور امام علی رضا علیہ السلام اسے سختی سے رد کر رہے تھے۔"
الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج۲، ص۲۶۰
نمبر 3:
مامون کا ارادہ تھا کہ امامؑ کو اپنے پاس بلا کر اس تحریک کو خاموش کر دے جو علویوں کی چل رہی ہے اور جس کا محوری کردار امامؑ ادا کر رہے ہیں۔ امامؑ نے بادل نخواستہ ولیعہدی کو قبول تو کر لیا، مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ حکومتی کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں لیں گے۔
امامؑ نے صلح و جنگ، منصوب و معزول، تقسیمِ اموال، یا کسی ذمہ داری کو قبول نہیں کیا۔ اس طرح آپ نے تحریک کو بھی باقی رکھا اور اپنے چاہنے والوں کو بھی تقویت بخشی۔
نمبر 4:
مامون کی سیاست کا ایک رخ یہ بھی تھا کہ اگر امامؑ ولیعہد بن جائیں تو عوامی مقبولیت ماند پڑ جائے گی۔ مگر امامؑ نے اس سازش کو منبر خلافت کو دین کی تبلیغ کا ذریعہ بنا کر ناکام بنا دیا۔ آپ کے مناظرے، فرمودات، بیانات ہر طرف ولایت کے پیغام کو عام کرنے لگے۔
نمبر 5:
مامون چاہتا تھا کہ اسے ایک روحانی پیشوا کہا جائے، کیونکہ اس نے امام علی رضاؑ کو ولیعہد بنایا۔ تاکہ خلافتوں پر کنبہ پروری کا جو الزام تھا، وہ اس پر نہ آئے۔
امامؑ نے اس دھوکہ کو بھی طشت از بام کر دیا۔ فرمایا: "اگر میں نے اس عہدے کو قبول نہ کیا ہوتا تو مامون مجھے قتل کر دیتا۔"
مامون نے اپنے سگے بھائی امین کو قتل کیا، اس کا سر شہروں میں پھرایا۔ وہ کہاں سے مقدس ہو گیا؟ اس نے ولیعہدی صرف اپنی سیاست بچانے کے لیے دی، جس میں وہ ناکام رہا۔
نمبر 6:
مامون چاہتا تھا کہ امامؑ حکومت کے کرتوتوں کی تاویل کریں تاکہ حکومت کو عصمت کا غلاف مل جائے۔ مگر امامؑ نے مشروط قبولیت کی ذوالفقار سے اس سازش کا گلا کاٹ دیا۔
عید کی نماز کا واقعہ مشہور ہے۔ امامؑ نے فرمایا کہ میں رسول اللہؐ اور حضرت علیؑ کی طرح نماز پڑھاؤں گا۔ جب وہ اسی شان سے نکلے تو حکومت دہل گئی اور انہیں واپس بلانا پڑا۔
الارشاد، شیخ مفید، ج۲، ص۲۵۷
نتیجہ:
امامؑ نے ولیعہدی کے پس منظر میں آنے والی نسلوں کی رہنمائی فرمائی کہ اگر کوئی عہدہ شرط و شروط کے ساتھ لیا جائے اور وہ سیاست کا آلہ کار بننے کے بجائے خدمتِ خلق کا وسیلہ بنے، تو یہ اقدام بہتر ہے۔ فتنے، فریب، جبر، اور ظلم کے ماحول میں علم و حلم، عدل و صداقت، اور وفاداری کے ساتھ قدم رکھنا لازم ہے۔
آئمہ علیہم السلام کی حکیمانہ حیات کے نقوشِ جلی سے استفادہ اس دور کے گھٹن زدہ ماحول سے نجات دلانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بس بصیرت، فہم و فراست، جوش و ہوش، عقل و خرد کے ساتھ تاریخ کا تجزیہ کرنا ہوگا تاکہ ماضی کا جائزہ مستقبل سازی میں مددگار ثابت ہو۔
ربِ کریم ہمیں اس دورِ جہالت میں علمِ اہلِ بیت سے مکمل طور پر آشنا فرمائے۔ ہماری سیاسی سرگرمیوں میں شمعِ اخلاص روشن فرما، چشمِ ثبات میں توکل کا کاجل لگا دے، فکر و قلم میں صدق و صفا، تحریر میں روانی عطا فرما، اور ملتِ تشیع کی حفاظت فرما، بحقِ آلِ طٰہ و یٰس۔
آمین یا رب العالمین۔
اختتامی حوالہ جات (مختصر):
1. شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، جلد 2، ص 257، 260
2. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج 49 و 50
3. سید علی خامنہای، درسنامۂ سیرۂ ائمہؑ، موضوع: ولیعہدی امام رضاؑ
4. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ج 1 و 2
5. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ماجرائے مامون و امین









آپ کا تبصرہ