حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے اپنے ہفتہ وار ٹیلی ویژن پروگرام میں کہا ہے کہ "فلسطین کا مسئلہ انسانیت کا سب سے مقدس مسئلہ ہے"۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ وینزویلا کی تعمیراتی ٹیمیں، کسان اور ڈاکٹرز کو غزہ بھیجا جائے تاکہ وہ وہاں کے عوام کی مدد کریں اور ان کے ساتھ کھڑے رہیں۔ مادورو نے امید ظاہر کی کہ موجودہ جنگ بندی "صرف ایک اور رسمی معاہدہ" ثابت نہ ہو، بلکہ نسل کشی کے مظلوموں کے لیے حقیقی انصاف لائے۔
صدر مادورو نے زور دیا کہ امریکہ، مصر، ترکی اور قطر کو چاہیے کہ وہ غزہ کی تعمیرِ نو، مغربی کنارے اور قدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرنے، اور بین الاقوامی سطح پر فلسطینی ریاست و منتخب حکومت کے اعتراف کے عملی اقدامات کو یقینی بنائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی معاہدے کے ساتھ انصاف نہ ہو تو وہ “صرف ملبے کا امن” کہلائے گا۔ انہوں نے غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا:
"کیا اس قتلِ عام پر انصاف ہوگا؟ 65 ہزار افراد میزائل حملوں میں مارے گئے، جن میں 25 ہزار سے زائد بچے اور بچیاں شامل ہیں۔"
مادورو نے کہا کہ امریکہ میں عوامی رائے فلسطینیوں کے حق میں بدل رہی ہے۔ سروے کے مطابق 60 فیصد امریکی عوام فلسطینی موقف کی حمایت کرتے ہیں اور غزہ کی صورتحال کو نسل کشی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے عالمی سطح پر احتجاجی تحریکوں کو جاری رکھنے کی اپیل کی تاکہ فلسطینی عوام کو انصاف، زمین اور آزادی کا حق مل سکے۔
امریکا کی وینزویلا کے خلاف "نفسیاتی جنگ"
صدر مادورو نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں کہا کہ امریکہ کی جانب سے وینزویلا پر حالیہ حملے دراصل ایک نفسیاتی جنگ تھے، جن کا مقصد ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانا تھا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اگست، ستمبر اور اکتوبر کے اوائل میں واشنگٹن نے فوجی دھمکیوں اور میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے وینزویلا پر دباؤ ڈالا، مگر حکومت نے ان تمام سازشوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور ایک نئی اقتصادی پالیسی اپناتے ہوئے پیداوار اور روزگار کے مواقع کو برقرار رکھا۔
امریکی الزامات کے جواب میں مادورو نے کہا: "وینزویلا نہ منشیات پیدا کرتا ہے اور نہ اس کا سوداگر ہے۔"
انہوں نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ جھوٹے اور سنگین الزامات لگا کر وینزویلا کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے، خاص طور پر اس وقت جب وہ ملک پر ہتھیاروں کے بہانے سے حملہ کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔









آپ کا تبصرہ