حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سربراہ ادارہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر حجۃ الاسلام محمد حسین طاہری آکردی نے کہا کہ دنیا کے تمام سیاسی اور اقتصادی بحران دراصل ایک بنیادی عقیدتی نزاع کی شاخیں ہیں، اور وہ یہ ہے کہ انسانیت کا حقیقی نجات دہندہ اور فرمانروا کون ہے۔
انہوں نے مشہد میں منعقدہ نشست "عالمی صہیونیت اور اس کا مهدوی تعلیمات سے تقابل" سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ عالمی جنگ نہ صرف سیاسی یا اقتصادی ہے بلکہ درحقیقت ایک فکری و اعتقادی تصادم ہے۔ ان کے بقول، عالمی صہیونیت نے انسان اور قدرت کے مفہوم کو مسخ کر کے مکتبِ مهدویت کے خلاف ایک منظم نظریاتی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
حجۃ الاسلام طاہری آکردی نے کہا کہ اکیسویں صدی ادیان کی صدی ہے، جہاں اصل معرکہ اس سوال پر برپا ہے کہ دنیا کی قیادت الٰہی نظام کے ہاتھ میں ہوگی یا انسان پرست مغربی نظام کے قبضے میں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ فراماسونری اور جدید اومانیسم، قرآن کی تعبیر میں “حزب الشیطان” ہیں، جو شیطان کو دوست اور خدا کو دشمن ظاہر کر کے مهدوی فکر کے مقابل صف آراء ہیں۔ ان کے مطابق، امریکہ کی دونوں بڑی جماعتیں — ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز — دراصل صہیونی اور فراماسونی فکر کی نمائندہ ہیں، جن کی جڑیں مسیحی صہیونیت میں پیوست ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ اسرائیل ایک مذہبی و سیاسی منصوبے کا ظاہری چہرہ ہے، جبکہ اس کے اصل فیصلے امریکہ کے فکری و دینی مراکز میں ہوتے ہیں۔ آج فلسطین، لبنان، عراق اور افغانستان سمیت دنیا بھر کی جنگیں اسی عقیدتی کشمکش کا تسلسل ہیں۔
حجۃ الاسلام طاہری آکردی نے مزید کہا کہ صہیونی تحریک صرف ایک سیاسی منصوبہ نہیں بلکہ ایمان و عقیدہ ہے، جس نے مذہب اور طاقت کو یکجا کر کے دنیا پر حکمرانی کا نظریہ قائم کیا ہے۔ ان کے مطابق، اس نظام کے مقابل صرف وہی قوم کامیاب ہو سکتی ہے جو مہدوی فکر اور الٰہی قیادت پر ایمان رکھتی ہو۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ دنیا ایک عظیم فکری انقلاب کے دہانے پر کھڑی ہے، اور جو کچھ غزہ، لبنان اور ایران میں رونما ہو رہا ہے، وہ اسی وعدۂ الٰہی کی تمہید ہے جس کے تحت عدلِ مہدوی عنقریب پوری دنیا پر غالب آ کر رہے گا۔









آپ کا تبصرہ