حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بوشہر کے امام جمعہ حجت الاسلام والمسلمین غلام علی صفائی بوشہری نے آج "جہاد تبیین" کے عنوان سے منعقدہ ایک اجلاس میں معاشرے پر ثقافتی اور فکری خطرات کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے سافٹ وار اور "ثقافتی تحریفی یلغار" کو فوجی حملوں سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا اور حاضرین سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ جہاد تبیین کے میدان میں اتریں تاکہ عوام کے دینی اور انقلابی تشخص کو محفوظ رکھا جا سکے۔
انہوں نے انبیاء (ع) اور مذہبی رہنماؤں کے تاریخی تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ہر بڑے انسانی واقعہ بشمول ادیان اور انقلابات اپنے دور انتظام میں دو قسم کے حملوں کا سامنا کرتے ہیں: سخت یلغار (فوجی) اور نرم یلغار (فکری، ادراکی اور ثقافتی حملے)۔
بوشہر کے امام جمعہ نے انبیاء کی زندگیوں سے مثالیں دیتے ہوئے کہا: حضرت نوح علیہ السلام نے سخت یلغار کو پیچھے چھوڑ دیا تھا لیکن نرم یلغار یا سافٹ وار اس حد تک بڑھ گئی کہ ان کے بیٹے نے بھی ان کی پیروی نہیں کی۔ حضرت موسی علیہ السلام کے معاملے میں، انہوں نے بھی فرعون کی سخت یلغار کو پانی میں شکست دی لیکن نرم یلغار میں انہی کے ساتھی کچھ وقت بعد بت پرست ہو گئے۔
انہوں نے کہا: نرم یلغار اور سادٹ وار کی اہم مثالوں میں سے ایک "تحریف" ہے؛ یہ ایک دھیما اور طویل المدتی عمل ہے جو بتدریج معانی، اصول، مقاصد اور شخصیات کو الٹ دیتا ہے تاکہ اصل حقیقت کو معاشرے کے سامنے غلط اور گڈمڈ صورت میں پیش کرے۔
حجت الاسلام والمسلمین صفائی بوشہری نے صدر اسلام کی تاریخ خاص طور پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے دور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: تحریف نے سیاسی میدان میں کیسے اثر ڈالا اور یہاں تک کہ حکومت کے قریبی حلقوں کو بھی متاثر کیا۔
انہوں نے کچھ شخصیات اور تحریکوں کی طرف سے صورت حال کو پیچیدہ بنانے میں کردار کی طرف اشارہ کیا اور کہا: جب خواص کی طرف سے جہاد تبیین نہ ہو تو تحریف معاشرتی تہہ میں تیزی سے سرایت کر جاتی ہے اور اس کے اثرات ہوتے ہیں۔









آپ کا تبصرہ