ترجمہ و ترتیب: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی| اسلام امن و سکون کا دین ہے اور ہم میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کی قدر کریں اور اپنے اعمال اور رویّوں سے کسی کو اذیت نہ پہنچائیں۔ اسلام میں جسم کا ہر عضو خداوندِ متعال کے سامنے جواب دہ ہے اور زبان ان اعضاء میں سے ایک ہے، جسے نیکی اور بدی دونوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ زبان سے انسان اچھی اور نیک باتیں بھی کہہ سکتا ہے اور اسی زبان سے ہی دوسروں کو تکلیف بھی پہنچا سکتا ہے۔
ذیل میں زبان کے چند گناہوں کا بیان مقصود ہے:
1. توہین اور تحقیر
اسلامی تعلیمات میں بڑے گناہوں میں سے ایک دوسروں کی توہین اور تذلیل کرنا ہے۔ جو شخص کسی کو ذلیل کرتا ہے، درحقیقت خود ذلیل اور خوار ہوتا ہے۔
حدیث میں آیا ہے:"کسی فقیر (تنگدست) مومن کو حقیر نہ جانو، کیونکہ جو کسی مومن محتاج کو حقیر سمجھتا ہے اور اسے کم سمجھتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرتا ہے اور وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس تحقیر سے باز آجائے یا توبہ کرلے۔"(بحارالانوار، جلد 75، صفحہ 146)
2۔ غرور اور خود پسندی
ان گناہوں میں سے ایک جو بدقسمتی سے معاشرے میں بہت زیادہ عام ہو گیا ہے، خود پسندی اور غرور ہے۔ ایسے لوگ جو اپنی بڑائی جتاتے ہیں درحقیقت کمزور اور حقیر ہوتے ہیں۔
قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا:"إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ" (لقمان: 18)بے شک اللہ کسی مغرور اور خود پسند انسان کو پسند نہیں کرتا۔
دوسروں کو دھمکانا اور ڈرانا انسان کی شان کے خلاف ہے، اور کسی مؤمن کو ناحق دھمکی دینا جائز نہیں۔ یہ دھمکی زبان یا عمل دونوں صورتوں میں ہو سکتی ہے۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی مومن کو خوفزدہ کرنے کی نیت سے اس کی طرف نگاہ کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے خوف زدہ اور ڈرائے گا — جس دن اللہ کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔"
3۔ گناہ کا اظہار
دوسروں کے درمیان اپنے گناہ کا اظہار کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اگر کسی انسان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے صرف اپنے خدا کے سامنے بیان کرے اور اسی سے توبہ کرے۔
امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص گناہ کو چھپاتا ہے، اس کا عمل ستر ہزار نیک اعمال کے برابر ہے، اور جو اپنے گناہ کو ظاہر کرے، وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے، اور گناہ چھپانے والا بخشا جاتا ہے۔(عیون اخبار الرضا، جلد 12، صفحہ 412)
4۔ راز داری
انسان کو چاہیے کہ اپنے ذاتی رازوں کو محفوظ رکھے اور انہیں کسی کے سامنے ظاہر نہ کرے۔ حدیث میں ہے کہ تمہارا راز جب تک فاش نہ ہو، خوشی کا باعث ہے، اور جب ظاہر ہو جائے تو غم و اندوہ کا سبب ہے۔ (عزرالحکم /436)
5- فضول اور بے فائدہ باتوں سے پرہیز
لوگوں کے سامنے فضول گفتگو کرنا یا بے کار پیغامات اور ای میلس بھیجنا بھی اسی میں شمار ہوتا ہے۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے بارہا فرمایا ہے: "اے لوگو! تقویٰ اختیار کرو، کیونکہ انسان بیکار پیدا نہیں کیا گیا کہ کھیل کود میں مشغول رہے، اور نہ ہی اسے آزاد چھوڑا گیا ہے کہ بے معنی (غیر مفید) باتیں کرے۔(نہج البلاغہ، حکمت 37)
6۔ بے جا سوالات
بے بنیاد اور فضول سوالات کرنا بھی زبان کے گناہوں میں سے ہے۔ انسان کو چاہیے کہ ایسے فضول سوالات کرنے کے بجائے غور و فکر کرے اور علم حاصل کرے۔ قرآنِ کریم کے سورۂ مائدہ کی آیت 101 اور 102 میں ارشاد ہوا: "ایمان والو ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو تم پر ظاہر ہوجائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر نزول قرآن کے وقت دریافت کرلو گے تو ظاہر بھی کردی جائیں گی اور اب تک کی باتوں کواللہ نے معاف کردیا ہے کہ وہ بڑا بخشنے والا اور برداشت کرنے والا ہے. تم سے پہلے والی قوموں نے بھی ایسے ہی سوالات کئے اور اس کے بعد پھر کافر ہوگئے۔
7۔ بلاوجہ معذرت خواہی
بلاوجہ اور بے دلیل معذرت خواہی گناہوں میں اضافہ کرتی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا : "زیادہ معذرت کرنا گناہوں کو بڑھا دیتا ہے۔"(غرر الحکم، حدیث 241)
8۔ عیب جوئی
بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ یہ ہے کہ انسان دوسروں کے عیب تلاش کرے۔ جو لوگ بار بار دوسروں میں عیب نکالتے ہیں، وہ کامیاب نہیں ہوتے اور اپنی عزت و حرمت کو خود ہی ضائع کر دیتے ہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: "جو شخص کسی مؤمن کو اس کے گناہ پر ملامت کرے، خداوند متعال اسے دنیا اور آخرت دونوں میں اسی طرح رسوا کرے گا۔"(اصول کافی، جلد 2، صفحہ 356)
9۔ دوسروں کو دھمکانا
دوسروں کو دھمکانا انسان کی شان کے خلاف ہے، اور انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی مؤمن کو ناروا دھمکیاں دے۔ دھمکی کسی بھی صورت میں ہوسکتی ہے، چاہے زبانی ہو یا عملی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی مؤمن کی طرف اس نیت سے نظر کرے کہ اسے خوفزدہ کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے خوف میں مبتلا کرے گا، اُس دن جب اللہ کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔"(جامع الاخبار، صفحہ 127)
10- چاپلوسی (خوشامد)
افسوس کہ آج کی دنیا میں بہت سے لوگ چاپلوسی اور جھوٹ میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ وہ جھوٹ بولتے ہیں تاکہ منصب، دولت یا بہتر مقام حاصل کر سکیں۔ اسلام میں چاپلوسی مؤمن کی صفت نہیں بلکہ نہایت ناپسندیدہ عمل ہے۔
کسی کو گمراہ کرنا اور غلط مشورہ دینا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اگر کوئی شخص ہم سے مشورہ لینے آئے تو ہمیں اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ سچ بولیں، اسے صحیح رہنمائی کریں اور اس کے امین بنیں۔
امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "مشورہ لینے والے کے ساتھ خیانت کرنا اور اسے دھوکہ دینا سب سے سخت گناہوں میں سے ہے، یہ بڑا شر ہے اور روزِ قیامت عذاب اور سختی کا باعث بنے گا۔"(غرر الحکم، حدیث 397)
11۔ جھوٹ
جھوٹ بولنے والا خدا کا دشمن ہے۔ انسان کی پوری زندگی میں یہی جھوٹ ہے جس نے اسے گمراہی کی راہ پر ڈال دیا ہے، اور جھوٹ بولنے والے درحقیقت خدا کے دشمن ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “تم جھوٹ سے دور رہو، کیونکہ جھوٹ برائیوں کی طرف لے جاتا ہے، اور برائیاں آگ (دوزخ) کی طرف لے جاتی ہیں۔” (جامع الاخبار، 149)
12۔ جھوٹا وعدہ کرنا
جھوٹا وعدہ کرنا انسانوں کے درمیان اعتماد کو ختم کر دیتا ہے اور معاشرے کے اخلاقی نظام کو تباہ کر دیتا ہے۔ جھوٹا وعدہ خدا کے غضب کو بھڑکاتا ہے۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے جناب مالک اشتر کے نام اپنے ایک خط میں فرمایا: "اُس وعدے کی خلاف ورزی سے بچو جو تم نے لوگوں سے کیا ہے۔"
13۔ فحاشی
جو لوگ گندی اور بے ہودہ باتیں کرتے ہیں اور دوسروں کو گالیاں دیتے ہیں، وہ جھگڑوں اور فساد کا سبب بنتے ہیں اور یہ بری بات انسان کو پستی میں گرا دیتی ہے۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا: “جو شخص کسی کو گالی دیتا ہے، وہ اپنے حسد کرنے والے کو خوش اور مطمئن کر دیتا ہے۔”
اگر مذاق (بطور مزاح) خوشی کے لئے کیا جائے تو ٹھیک ہے، لیکن اگر بے موقع اور بے جا ہو تو اسلام اسے ناپسند کرتا ہے۔ مذاق میں حد سے تجاوز کرنا دشمنی اور بدبختی کا باعث بنتا ہے اور مذاق میں زیادتی سے انسان ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔
14- سرزنش
امیر المومنین امام علی علیہ السلام اپنے سابق ایمانی بھائی کے بارے میں فرماتے ہیں: "وہ ان چیزوں میں کہ جن میں عذر کی گنجائش ہوتی تھی کسی کو سرزنش نہ کرتا تھا جب تک کہ اس کے عذر معذرت کو سن نہ لے۔" (نہج البلاغہ، حکمت 289)
15۔ ہجو
ہجو (طنز و تمسخر یا کسی کی عیب جوئی) یعنی کسی جماعت یا گروہ کے عیب اور کمزوریاں بیان کرنا ہے۔ اسلام میں ہجو کو اس قدر ناپسند کیا گیا ہے کہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے ہجو کرنے والوں کو تعزیر (سزا) دی۔ (وسائل الشیعہ، جلد 3، صفحہ 443)
16۔ زنا کی نسبت دینا
زنا کی نسبت دینا اسلام اور مذہبِ تشیع میں بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔ قرآن و احادیث میں اس کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ قرآنِ مجید کے سورۂ نور آیت 4 میں ارشاد ہوا: "اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور چار گواہ فراہم نہیں کرتے ہیں انہیں اسیّ (80) کوڑے لگاؤ اور پھر کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرنا کہ یہ لوگ سراسر فاسق ہیں."
17- بغیر علم اور بغیر جانے بولنا
اگر کوئی شخص کسی بات کو نہیں جانتا تو اسے نہیں کہنا چاہیے۔ انسان کو صرف وہی بات کہنی چاہیے جس کا اسے علم ہو اور جس کا جواب دینے کی استطاعت رکھتا ہو۔ پس جو بات تم نہیں جانتے وہ مت کہو، کیونکہ زیادہ حق اُنہی لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تمہاری بات کا انکار کرتے ہیں۔(نہج البلاغہ، خط 31)
18۔ احسان جتانا
جب کوئی شخص کسی پر احسان کرے تو اسے احسان نہیں جتانا چاہیے، کیونکہ احسان جتانے سے اس نیکی کا ثواب ختم ہو جاتا ہے۔ احادیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی نیکی کرے اور پھر اس کو جتائے تو گویا اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔
حضرت امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص اپنی نیکی پر منّت رکھتا (جتاتا) ہے، اس نے درحقیقت کوئی نیکی نہیں کی۔”(غررالحکم، حدیث 718)
19- بڑھا چڑھا کر بولنا
امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے گزافہ گوئی یعنی باتوں کو بڑھا چڑھا کر کہنا بدترین عمل قرار دیا ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں: “کتنی ہی لاف زنی (بڑھا چڑھا کر بات) ایسی ہے جو اپنے بولنے والے کے لئے ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔”(غررالحکم، حدیث 415)
20- بات کرنے سے پہلے سلام نہ کرنا
ادب کی ایک نشانی یہ ہے کہ انسان بات شروع کرنے سے پہلے سلام کرے اور اس طرح اپنی شائستگی کا اظہار کرے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "کسی کو سلام کرنے سے پہلے گفتگو شروع نہ کرو۔(مستدرک الوسائل جلد2، صفحہ 68)
21- طعن و تشنیع
اسلام میں کسی کو طعنہ دینا یا طنز و تمسخر کا نشانہ بنانا جائز نہیں ہے، بلکہ اگر کسی میں کوئی عیب یا غلطی نظر آئے تو احترام کے ساتھ اسے سمجھانا چاہیے، نہ کہ اس کی توہین کی جائے۔
امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا: “مجھے پسند نہیں کہ تم زبان سے بدگوئی اور لعنت کرنے والے بنو۔”
22- ناحق اور جھوٹی قسم کھانا
آج کل دکانوں اور بازاروں میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ کسی چیز کو بیچنے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں اور خدا کی قسم کھا لیتے ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "خدا کی قسم نہ سچی بات کے لئے کھاؤ اور نہ جھوٹی کے لئے، کیونکہ خداوند نے فرمایا ہے کہ خدا کو اپنی قسموں کا ذریعہ نہ بناؤ۔"(من لا یحضره الفقیه، جلد 4، صفحہ 111)
23- چغل خوری
کسی کی بات کو دوسرے سے بتانا، یعنی چغلی کرنا اور کسی کا کلام دوسروں تک پہنچانا، نہ صرف اسلام میں بلکہ کسی بھی عاقل انسان کی منطق میں قابلِ قبول نہیں ہے۔
سورہ ہمزہ آیت 1 میں ارشاد ہوا۔ “وَیْلٌ لِکُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ”"تباہی اور بربادی ہے ہر طعنہ زن اور چغلخور کے لئے."
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "چغل خور کبھی جنت میں داخل نہیں ہوگا۔"(مستدرک الوسائل، ج11، ص111)
24۔ تہمت (بہتان)
امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: "کوئی بے شرمی اور بدی بہتان لگانے جیسی نہیں ہے۔"
امیرالمؤمنین علیہ السلام کی حدیث ہے۔ "مؤمن اپنے مؤمن بھائی کے ساتھ فریب نہیں کرتا، اس سے خیانت نہیں کرتا، اسے ذلیل نہیں کرتا اور اس پر تہمت نہیں لگاتا۔"
یہ تو ان چند عیوب میں سے ہیں جو زبان کے سبب پیدا ہوتے ہیں اور انسان اپنی زبان سے بہت سے دوسرے گناہوں کا بھی مرتکب ہو سکتا ہے۔
لہٰذا انسان کو ہمیشہ اپنے اعمال اور گفتار پر نظر رکھنی چاہیے، اور کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی زبان سے دوسروں کو دکھ یا تکلیف نہ پہنچائے۔ دوسرے لفظوں میں، خوبصورت بولیں، تاکہ خوبصورت سنیں؛ اس لیے ضروری ہے کہ زبان کی حفاظت کی جائے۔
قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا:
“اے ایمان والو! کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے، ممکن ہے وہ لوگ ان سے بہتر ہوں، اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، شاید وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کرو، اور ایک دوسرے کو برے القاب سے مت پکارو۔ ایمان لانے کے بعد برے نام سے پکارا جانا بہت بُرا ہے۔ اور جو توبہ نہیں کرتے، وہی ظالم ہیں۔”
ایک روایت میں ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص اس چیز کی حفاظت کا ذمہ لے جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان ہے (یعنی زبان) اور اس چیز کی جو اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے، میں اُس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔”
ایک شخص نے آپ سے عرض کیا: “نجات کا راستہ کیا ہے؟”
آپ نے فرمایا: “اپنی زبان کی حفاظت کرو۔”
ایک دوسرے نے پوچھا: “میرے لئے سب سے زیادہ خطرہ کس چیز کا ہے؟”
آپ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا: “یہ!” اور فرمایا: “سب سے زیادہ لوگ جن چیزوں کی وجہ سے جہنم میں جاتے ہیں، وہ زبان اور شہوت ہیں۔”
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: “خدا کی قسم! میں یقین نہیں کرتا کہ کوئی بندہ اپنی زبان کی حفاظت کئے بغیر فائدہ مند تقویٰ حاصل کرسکے۔”
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “اکثر لوگ اپنی زبان کے گناہوں اور آفتوں کی وجہ سے جہنم میں جاتے ہیں۔”









آپ کا تبصرہ