اتوار 23 نومبر 2025 - 22:36
خانہ وحی پر حملہ اور کوثرِ قرآنؑ کی بے حرمتی کے اسباب

حوزہ/ ایامِ فاطمیہ کے دوران ہم اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراؑؑ کے مبارزاتی، سیاسی، اجتماعی کردار اور ان کے بے مثال و دائمی اثرات کا جائزہ لیں، اور معتبر تاریخی منابع سے حقائق اخذ کر کے صدر اسلام کے واقعات کا ایک جامع تجزیہ پیش کریں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایامِ فاطمیہ کی مناسبت سے حضرت فاطمہ زہراؑ ـ خاتونِ جنت اور تمام جہانوں کی سردار ـ کی شہادت سے متعلق چند نکات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

شہادت یا طبعی وفات؟

اہلِ سنت کے بعض مصادر یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کی وفات طبعی تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ رسولِ خدا (ص) کی وہ نورانی یادگار، جو زمانۂ رسالت میں صحت، توانائی اور جوانی کے کمال پر تھیں، اچانک شدید ضعف اور بیماری میں کیسے مبتلا ہو گئیں اور اوجِ شباب میں دنیا سے کیوں رخصت ہوئیں؟

ائمۂ اطہارؑ سے منقول روایات اور حضرت زہراؑ کی زیارات میں صراحت کے ساتھ ان کی شہادت کا ذکر موجود ہے۔ حضرت زہراؑ نے دفاعِ ولایت میں جو استقامت دکھائی، وہ رہتی دنیا تک مرد و زن کے لیے عملی نمونہ اور ولایت مداری کا بلند ترین معیار بن گئی۔

بعض مخالفین دعویٰ کرتے ہیں کہ شیعہ علما ماضی میں حضرت زہراؑ کی شہادت کا ذکر نہیں کرتے تھے، حالانکہ یہ دعویٰ خلافِ واقع ہے۔ انقلابِ اسلامی سے پہلے بھی ایران سمیت کئی علاقوں میں حضرت زہراؑ کی شہادت کے عنوان سے مجالس ہوتی تھیں۔ انقلاب کے بعد دونوں تاریخیں (۷۵ دن اور ۹۵ دن بعد از رحلتِ رسول ص) بڑے اہتمام سے منائی جاتی ہیں۔

حضرت امام خمینیؒ نے انقلاب کے ابتدائی برسوں میں واضح لفظوں میں “شہادتِ حضرت زہراؑ” کا ذکر کیا، اور رہبر معظم انقلاب بھی وحدتِ اسلامی کی تاکید کے باوجود ہر سال حسینیہ امام خمینی میں مجالسِ فاطمیہ منعقد کرتے ہیں۔ لہٰذا نقلی اور عقلی دونوں اعتبار سے شہادتِ حضرت زہراؑ میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔

خانہ وحی پر حملے کے اسباب

حضرت فاطمہ زہراؑ کی شہادت کے بارے میں دو روایتیں مشہور ہیں:

1. ۷۵ دن بعد شہادت، یعنی ۱۳ جمادی الاول

2. ۹۵ دن بعد شہادت

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ شہادت کیسے پیش آئی؟

رسول اکرم (ص) کی رحلت کے بعد خلافت کے غصب اور امیرالمؤمنینؑ کے بیعت نہ کرنے پر عمر بن خطاب نے خلیفۂ وقت سے کہا کہ علیؑ کی بیعت کے بغیر حکومت مستحکم نہیں ہو سکتی۔ اسی بنیاد پر حضرت علیؑ کو زبردستی بلانے کا منصوبہ بنایا گیا۔

قنفذ کا بھیجا جانا

خلیفہ نے قنفذ کو حضرت علیؑ کے گھر بھیجا۔ حضرت نے فرمایا: “تم نے رسول اللہ پر جھوٹ باندھا ہے! وہ ہرگز خلیفۂ رسول نہیں۔”

قنفذ نے دوبارہ پیغام پہنچایا مگر حضرت علیؑ نے اس دعوے کو سخت رد کیا۔

عمر کا حملہ

بار بار ناکامی کے بعد عمر نے خلیفہ سے سخت کارروائی کی اجازت لی، ہاتھ میں آگ کی شعلة لی اور چند افراد کے ساتھ (جنہیں تاریخی منابع میں “رجالہ” یعنی اوباش و بدمعاش لوگ کہا گیا) حضرت علی و فاطمہؑ کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔

ابن قتیبہ دینوری کی کتاب الامامة والسیاسة (قرنِ سوم ہجری) میں واضح طور پر ذکر ہے کہ عمر بن خطاب آگ کے ساتھ دروازے تک پہنچا۔

شیعہ مصادر کا بیان

شیعہ روایات کے مطابق: عمر نے دروازے کو آگ لگا دی

دروازہ جب نیم سوختہ ہوا تو اسے زور سے لات مار کر کھول دیا۔ سیدہ زہراؑ دروازے کے پیچھے کھڑی تھیں، دروازے کا دباؤ ان کے مبارک پہلو پر پڑا، وہ دیوار اور در کے بیچ شدید زخمی ہوئیں۔ بطنِ مطہر میں موجود جنین “محسنؑ” سقط ہوگیا، سیدہ بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑیں۔ گھر میں موجود زبیر نے مزاحمت کی مگر مار پیٹ کر اسے قابو کر لیا گیا۔ پھر حضرت علیؑ کے بازو باندھ کر مسجد کی طرف گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔

ان واقعات کے نتیجے میں حضرت زہراؑ کو شدید داخلی زخم آئے جن کی وجہ سے چند ہی دنوں میں آپ کی شہادت واقع ہوگئی۔

حضرت زہراؑ کی شہادت کے اسباب

1. رسولِ خدا (ص) کا عظیم صدمہ
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دردناک اور جانسوز رحلت ایک ایسی عظیم مصیبت تھی جسے وہی لوگ محسوس کر سکتے تھے جو نبی اکرمؐ کے مقدس مقام اور حقیقت سے واقف تھے۔ ان کے لیے اس صدمے کو برداشت کرنا انتہائی سخت اور دشوار تھا۔

رسول اللہؐ کی رحلت اتنی عظیم مصیبت ہے کہ ہم اپنی زیارتوں میں بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہفتے کی مخصوص زیارت میں "جو رسول خداؐ کے حضور پڑھتی جاتی ہے "ہم تین بار “انا للہ و انا الیہ راجعون” پڑھتے ہیں، اور پھر عرض کرتے ہیں:

اَصَبْنَا بِکَ یا حَبِیبَ قُلُوبِنَا، فَمَا اَعْظَمَ الْمُصِیبَةَ بِکَ، حَتّٰی انْقَطَعَ عَنّا الْوَحْی… فَإِنّا لِلّٰہِ وَإِنّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ

یعنی:اے ہمارے دلوں کے محبوب! آپ کی جدائی نے ہمیں عظیم ترین مصیبت میں مبتلا کردیا ہے، کیونکہ آپ کی رحلت کے ساتھ ہی ہم پر وحی کا دروازہ بند ہو گیا، اور ہم آپ کی فقدان کے غم میں ڈوب گئے۔

اسی طرح ماہِ رمضان کی دعا، دعائے افتتاح میں بھی ہم بارگاہِ الٰہی میں شکوہ کرتے ہیں:

اللهم انا نشکو الیک فقد نبینا

"خدایا! ہم تجھ سے اپنے نبیؐ کے بچھڑ جانے کی شکایت کرتے ہیں۔"

2. امت کی بے وفائی

حضرت زہراؑ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں کہ کس طرح خلافت غصب کی جا رہی ہے، اسلام کی بنیادیں متزلزل ہو رہی ہیں اور رسول اللہ (ص) کی تمام محنتیں ضایع ہونے کے خطرے میں ہیں۔ یہ غم ان کے قلبِ نازنین پر انتہائی بھاری تھا۔

3. گھر پر حملہ اور جسمانی اذیت

در سوزی، در کا دھکا، پہلو کی شکستگی، اور جنین کا سقط— ان سب نے مل کر آپ کو بسترِ شہادت تک پہنچا دیا۔ کئی دن کی تکلیف کے بعد آپ رنج و الم کے ساتھ اپنے رب سے جا ملیں۔

ماخذ: چینل اطلاع‌ رسانی استاد ڈاکٹر محمد حسین رجبی دوانی

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha