حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مشہد مقدس میں منعقد ہونے والی پہلی بین الاقوامی کانفرنس "الٰہیاتِ مقاومت" کے علمی پینل میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ممتاز مفکرین اور اساتذہ نے اس بات پر زور دیا کہ مقاومت صرف سیاسی یا عسکری ردعمل نہیں، بلکہ ایک عظیم اخلاقی، معنوی اور انسانی فریضہ ہے جو عدل، انسانی کرامت اور حق کے دفاع سے جڑا ہوا ہے۔

اس موقع پر تھائی لینڈ کے مطالعاتِ اسلامی فاؤنڈیشن کے سربراہ پروفیسر عداللہ ماناچیت نے اپنے خطاب میں کہا کہ دینی علوم کا احیا اور عالمی سطح پر فکری یکجہتی، موجودہ دور میں الٰہیاتِ مقاومت کو مضبوط بنانے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقاومت محض ظلم کے خلاف ردعمل نہیں، بلکہ وحی پر مبنی اخلاقی نظام، انسانی وقار اور الٰہی حقائق کے دفاع کا شعوری عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ دنیا تیز رفتار تبدیلیوں، فکری انتشار اور بد اخلاقیوں کا شکار ہے، جہاں ڈیجیٹل ذرائع کے باعث دینی معارف اکثر تحریف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں حقیقی دینی علوم کی طرف واپسی اور معنوی خودسازی، مقاومت کی بنیاد کو مستحکم کرتی ہے۔ ان کے مطابق حقیقی میدانِ جنگ انسان کے باطن میں ہے، جہاں حق و باطل کا فیصلہ ہوتا ہے۔

اسی پینل میں بوسنیا و ہرزیگووینا سے تعلق رکھنے والی ادارہ ابن سینا سراجیوو کی مرکزِ زبان و ادبِ فارسی کی ذمہ دار محترمہ مبینا موکر نے کہا کہ مقاومت اگر انسانی اور اخلاقی اقدار پر قائم ہو تو وہ عالمی سطح پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا ایک طاقت پر مبنی نظام سے نکل کر ثقافت اور اقدار پر مبنی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے، اور مقاومت اسی تبدیلی کی نمائندہ ہے۔
انہوں نے معنویت اور عبودیت کو انسانی مکالمے کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اندرونی مکالمہ انسان کو مضبوط بناتا ہے اور بیرونی مکالمہ سماج میں عدل، حق اور امید کو زندہ رکھتا ہے۔ محترمہ موکر کے مطابق فارسی ادب اور امام خمینیؒ کی شخصیت معنوی مقاومت کی عملی مثالیں ہیں، جو انسان کو ظلم کے سامنے ثابت قدم بناتی ہیں۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مؤسسہ تعلیمی و تحقیقی امام خمینیؒ کے رکنِ علمی پروفیسر محمد لگن ہاؤزن نے مقاومت کو ایک ہمہ گیر انسانی ذمہ داری قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مقاومت صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ ہر وہ انسان جو ظلم کے خلاف کھڑا ہو، اخلاقی اعتبار سے محاذ مقاومت کا حصہ ہے۔
انہوں نے فلسطین کی عالمی حمایت کو مقاومت کی روشن مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج دنیا بھر میں غیر مسلم نوجوان بھی مظلوم فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مقاومت ایک مشترکہ انسانی قدر بن چکی ہے۔ ان کے مطابق جہادِ تبیین، یعنی حقائق کو واضح کرنا، بھی مقاومت کا ایک اہم اور نظر انداز شدہ پہلو ہے۔
مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مقاومت امید، آگاہی اور اخلاقی بصیرت سے جڑی ہوئی ہے، اور اگر یہ ایک طرزِ زندگی بن جائے تو نہ صرف فرد کی تعمیر کرتی ہے بلکہ پورے معاشرے کو زندگی، حرکت اور معنی عطا کرتی ہے۔









آپ کا تبصرہ