جمعہ 9 مئی 2025 - 13:04
امام رضا علیہ السلام کے مناظرات کا انداز اور آج کے دور کے لیے سبق

حوزہ/ حوزہ علمیہ قم میں "مناظراتِ امام رضا علیہ السلام سے الہام یافتہ مناظرے کا فن" کے موضوع پر ایک علمی نشست منعقد ہوئی، جس میں دینی محقق ڈاکٹر سید علیرضا عالمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام رضا علیہ السلام کے علمی اندازِ گفتگو اور مناظرات آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ قم میں "مناظراتِ امام رضا علیہ السلام سے الہام یافتہ مناظرے کا فن" کے موضوع پر ایک علمی نشست منعقد ہوئی، جس میں دینی محقق ڈاکٹر سید علی رضا عالمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام رضا علیہ السلام کے علمی اندازِ گفتگو اور مناظرات آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

انہوں نے نشست کا آغاز دهۂ کرامت کی مبارکباد سے کیا اور کہا کہ مناظرے محض بحث کا نام نہیں بلکہ ایک سنجیدہ اور منظم علمی گفتگو کا عمل ہے جس میں فریقین کا ہدف مشترکہ مسائل کا حل ہوتا ہے۔

امام رضا علیہ السلام، عالمِ آل محمد(ص)

ڈاکٹر عالمی نے امام رضا علیہ السلام کی علمی عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو "عالمِ آل محمد(ص)" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، کیونکہ آپ نے تمام علمی میدانوں میں اپنے علم کا لوہا منوایا۔ آپ کے زمانے میں مختلف ادیان، فرقے اور نظریات پائے جاتے تھے، جن سے امام نے نہایت علمی انداز میں مناظرے کیے۔

مناظرات کا عروج: 201 تا 203 ہجری

انہوں نے کہا کہ امام کے مشہور مناظرے سن 201 تا 203 ہجری کے درمیان انجام پائے، جو کہ آپ کی ولایت عہدی کا زمانہ تھا، اگرچہ اس سے پہلے بصرہ میں بھی آپ نے علمی مکالمے کیے۔

مناظراتی منابع و مآخذ

مناظرات کے بنیادی ماخذ کے طور پر ڈاکٹر عالمی نے نوفلی، شیخ صدوق کی کتاب "عیون اخبار الرضا(ع)"، "التوحید" اور علامہ مجلسی کی "بحارالانوار" جلد دہم کا حوالہ دیا۔

مناظرات کے دو رخ: اسلامی معاشرے کے اندرونی اور بیرونی مکالمے

انہوں نے مناظرات کی دو اقسام بیان کیں:

1. بیرونی مناظرے : جن میں توحید، وجود خدا، هستی، زندگی کا مفہوم اور اخلاقی مسائل زیر بحث آتے ہیں۔

2. اندرونی مناظرے : جو فرقوں کے مابین انجام پاتے ہیں اور جن میں امامت، ولایت، ایمان و کفر جیسے موضوعات شامل ہوتے ہیں۔

روش و اصولِ مناظرہ

امام رضا علیہ السلام کے مناظرات کے اسلوب پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ ہمیشہ احترام و رواداری کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے، چاہے وہ کسی مذہب، فرقے یا قوم کے فرد سے ہو۔ امام علیہ السلام فریق مخالف کے عقائد و متون کو تسلیم کرتے اور انہی کی بنیاد پر استدلال کرتے، جیسا کہ مناظرۂ رأس الجالوت میں واضح ہوتا ہے۔

علمی فضا کی آزادی اور سوالات کا خیرمقدم

ڈاکٹر عالمی نے کہا کہ امام رضا علیہ السلام نے علمی سوالات کے لیے دروازے کھلے رکھے اور فرمایا: "جو چاہو پوچھو"، جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ علمی آزادی کے قائل تھے۔

عصر حاضر کے لیے سبق

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آج کے معاشروں کو بھی امام رضا علیہ السلام کے اسوہ سے سیکھنا چاہیے۔ سوالات اور شبہات کو دبا دینے کی بجائے ان کے لیے علمی و تحقیقی میدان فراہم کرنا چاہیے، تاکہ محققین اور علمائے دین قانع کنندہ انداز میں جواب دے سکیں۔

علم و حکومت کا رشتہ

نشست کے اختتام پر ڈاکٹر عالمی نے کہا کہ امام رضا علیہ السلام کا انداز ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ایک دینی رہنما کو علمی مسائل پر عبور حاصل ہونا چاہیے تاکہ وہ لوگوں کے فکری و اعتقادی چیلنجز کا مقابلہ کر سکے۔

امام رضا علیہ السلام کے مناظرات نہ صرف ان کے دور کے لیے مفید تھے بلکہ آج بھی مذہبی مکالمہ، علمی تحقیق، اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ایک روشن مثال ہیں۔ ان کے مناظرات میں علمی وسعت، فکری تحمل، اور دینی بصیرت کی جو جھلک نظر آتی ہے، وہ آج کی علمی و فکری دنیا کو درکار ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha