حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علوم و معارفِ قرآنی میں تحقیق ایک اہم اور قیمتی عمل ہے جو اسی وقت ثمر آور ہوتا ہے جب وہ سماجی ضروریات پر مبنی مسئلہ محور اور نوآورانہ ہو۔ تحقیقی ادارۂ ثقافت و معارفِ قرآن کریم نے سنہ ۱۳۶۶ء شمسی / 1987ء میں باضابطہ طور پر ’’مرکزِ ثقافت و معارفِ قرآن کریم‘‘ کے عنوان سے اپنے قیام کے بعد اپنی ذمہ داری کو محض علمی مواد کی جمع آوری اور تالیف تک محدود نہیں رکھا بلکہ اصیل، عمیق اور قابلِ عمل علمی پیداوار کے راستے پر گامزن رہا ہے۔ اس ادارہ نے ’’قرآن کریم کی علمی مرجعیت‘‘ ’’قرآنی نظام سازی کے مطالعات‘‘ ’’دایرۃ المعارفِ قرآن کریم‘‘ ’’اہلِ بیت اور قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں طرزِ زندگی کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ اور ’’قرآن کے ہم معنی الفاظ کا تجزیہ‘‘ جیسے منصوبوں کے ذریعے قرآنی مطالعات کو منظم بنانے میں انتہائی مؤثر اقدامات انجام دئے۔
موجودہ زمانے میں تحقیق محض معلومات اکٹھی کرنے اور تالیفی کتابیں مرتب کرنے سے معتبر نہیں بنتی۔ مصنوعی ذہانت (AI) نے یہ حقیقت اور بھی نمایاں کر دی ہے کہ مشینیں ڈیٹا جمع اور ترتیب دے سکتی ہیں لیکن نظریہ سازی، جدت اور علمی تخلیقات صرف باصلاحیت اور خردمند محقق کے ہی بس کی بات ہے۔ لہٰذا آج کے محقق کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ کسی نئی حقیقت کو دریافت کرے کسی حل نہ ہونے والے مسئلے کی توضیح کرے اور معاشرے اور اسلامی نظام کی ضروریات کے مطابق مؤثر حل پیش کرے۔
اسی موضوع کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کے لیے حجت الاسلام والمسلمین محمد صادق یوسفی مقدم تحقیقی ادارۂ ثقافت و معارفِ قرآن کریم دفترِ تبلیغاتِ اسلامی حوزۂ علمیہ قم کے سرپرست سے ایک انٹرویو کیا گیا جس کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔
انہوں نے کہا: تحقیق اور تعلیم و ترویج میں بنیادی فرق ہے۔ تحقیق ایک دیرپا عمل ہے اور اسی وقت علمی اور سماجی ثمرات دیتی ہے جب وہ ضرورت پر مبنی اور مسئلہ محور ہو۔ آج تحقیقی ادارۂ ثقافت و معارفِ قرآن کریم کی جن کامیابیوں پر فخر کیا جاتا ہے وہ سنہ 1987ء سے اب تک درجنوں محققین کی مسلسل محنت کا نتیجہ ہیں۔
تحقیقی ادارۂ ثقافت و معارفِ قرآن کریم کے سرپرست نے کہا: حقیقی محقق کو نیا تخلیقی اور جدید افکار پر مبنی کام پیش کرنا چاہیے ایسا کام جو مصنوعی ذہانت (AI) انجام نہیں دے سکتی۔ مصنوعی ذہانت (AI) ڈیٹا کو منظم کر سکتی ہے لیکن نظریہ پردازی نوآوری اور علمی تخلیقات صرف باصلاحیت خردمند محقق کی صلاحیت ہے۔ تحقیق کے میدان سے واقف افراد بخوبی پہچان سکتے ہیں کہ کوئی اثر مصنوعی ذہانت (AI) کی پیداوار ہے یا کسی محقق کی خلاقانہ کاوش۔
انہوں نے مزید کہا: تحقیق میں دو بنیادی اصول ہیں۔ پہلا یہ کہ محقق ’’ماہر‘‘ ہو یعنی علم کے ساتھ ساتھ تحقیق کے اصولوں اور طریقۂ کار سے مکمل آگاہی رکھتا ہو۔ علم؛ تحقیق کے لیے ضروری شرط ہے لیکن کافی نہیں۔ محقق کو علم کے علاوہ خرد اور عاقلانہ تفکر بھی درکار ہے تاکہ وہ پیشہ ورانہ انداز میں تحقیقی موضوعات پر کام کر سکے۔ غیر پیشہ ور فرد کے ہاتھوں تحقیق نتیجہ خیز نہیں ہوتی۔
حجت الاسلام یوسفی مقدم نے مزید کہا: دوسرا اصول انگیزه اور رغبت ہے۔ یہاں بعض اوقات دو امور آمنے سامنے آ جاتے ہیں: محقق کی ذاتی دلچسپی اور معاشرے کی ضرورت۔ اگر محقق صرف ذاتی شوق کے پیچھے چلے تو تحقیق سماجی اور نظامی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں رہتی اور اگر صرف نظامی مسائل مسلط کیے جائیں تو اس کی رغبت اور تخلیقی قوت متاثر ہو سکتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ان دونوں اصولوں کے درمیان توازن قائم کیا جائے تاکہ محققین اس طرح متحرک ہوں کہ ان کی ذاتی رغبت بھی برقرار رہے اور معاشرے اور نظام کی ضروریات بھی پوری ہوں۔ ایسا توازن ایسی تحقیقات کی راہ ہموار کرتا ہے جو اصیل بھی ہوں اور مؤثر بھی۔
انہوں نے کہا: اسی مقصد کے تحت ’’قرآن کریم کی علمی مرجعیت سے متعلق مطالعات کی روش شناسی‘‘ کے عنوان سے ایک کانفرنس کی منظوری دی گئی ہے اور امید ہے کہ آئندہ سال اس کا انعقاد ہوگا۔ فکری اور علمی تیاری کے لیے تخصصی نشستیں، علمی گفتگوئیں اور تخصصی انٹرویوز بھی اس پروگرام میں شامل ہیں تاکہ مخاطبین اس میدان میں زیادہ علمی اور عالمانہ انداز میں وارد ہوں اور اس عمل سے قیمتی نتائج حاصل ہوں۔ ان شاء اللہ یہ کاوشیں معاشرے اور اسلامی نظام کی کلیدی ضروریات کے مطابق مؤثر اصیل اور جواب دہ علمی پیداوار کا ذریعہ بنیں گی۔









آپ کا تبصرہ