جمعہ 26 دسمبر 2025 - 06:00
ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق امور کا حل مکالمے سے ممکن / تصادم سے گریز اور سفارتکاری پر زور

حوزہ / ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کے قائم مقام مستقل مندوب نے کہا: ایران کے جوہری معاملے پر تصادم سے گریز کیا جانا چاہیے اور سفارتکاری کو کامیاب ہونے کے لیے مزید وقت دیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کسی متبادل نظام پر اتفاق نہیں ہو جاتا، مشترکہ جامع ایکشن پلان یعنی جے سی پی او اے کے فریم ورک کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کے قائم مقام مستقل مندوب عثمان جدون نے اپنے خطاب میں کہا: سلامتی کونسل اس معاملے پر ستمبر میں بھی غور کر چکی ہے، جب جے سی پی او اے کے اسنیپ بیک میکنزم سے متعلق ناخوشگوار پیشرفت سامنے آئی تھی۔

انہوں نے کہا: پاکستان نے پابندیاں دوبارہ نافذ کرنے کے جلد بازی پر مبنی اقدام کی حمایت نہیں کی تھی اور ابتدا ہی سے خبردار کیا تھا کہ عجلت میں اٹھائے گئے اقدامات مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔

عثمان جدون کے مطابق پاکستان کا موقف اس یقین پر مبنی ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تمام مسائل کا حل صرف اور صرف مکالمے کے ذریعے ممکن ہے۔

پاکستانی مندوب نے کہا: حالیہ مہینوں میں سلامتی کونسل اور اس سے باہر اختلافات میں اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث مسئلے کے حل کے بجائے فاصلے بڑھ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا: صورتحال پہلے ہی اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزیوں، طاقت کے یکطرفہ استعمال اور اسنیپ بیک میکنزم کی مختلف تشریحات کی وجہ سے زیادہ پیچیدہ ہو چکی ہے۔

پاکستانی مندوب نے کہا: ایران کے جوہری معاملے پر پاکستان کا مؤقف بدستور برقرار ہے اور پاکستان سمجھتا ہے کہ سفارتکاری اور مذاکرات ہی وہ بنیادی اصول ہیں جن کی بنیاد پر ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تمام باقی مسائل کو فریقین کے حقوق، ذمہ داریوں اور فرائض کے مطابق حل کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا: دباؤ اور جبر پر مبنی اقدامات فریقین کو قریب لانے کے بجائے اعتماد کے فقدان میں اضافہ کرتے ہیں جبکہ پابندیوں کا سب سے زیادہ نقصان عام لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے، جس سے تجارت متاثر ہوتی ہے، معاشی ترقی رکتی ہے اور علاقائی روابط کے امکانات کمزور پڑ جاتے ہیں۔

عثمان جدون نے مزید کہا: اگرچہ جے سی پی او اے پر اس طرح عملدرآمد نہیں ہو سکا جیسا کہ ابتدا میں سوچا گیا تھا، تاہم یہ معاہدہ پھر بھی ایک اہم فریم ورک فراہم کرتا ہے جو بین الاقوامی قانون، باہمی احترام اور قبولیت پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق اگر آگے بڑھنے کے لیے مفاہمت اور لچک کا مظاہرہ کیا جائے تو جے سی پی او اے کی بنیادی روح اور ڈھانچہ آج بھی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔

پاکستانی مندوب نے جے سی پی او اے کی روح کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: اگر تمام فریقین مفاہمت کے جذبے کے تحت حل پر مبنی انداز اپنائیں تو موجودہ اختلافات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha