۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
آرٹیکل

حوزہ/دہلی اسمبلی نے این پی آر اور این آرسی کے خلاف تجویز منظور کی، دہلی ان کی مخالفت کرنے والی گیارہویں ریاست بنی، اہم بات یہ رہی کہ اسمبلی میں 2003 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کرنے کا بھی مطالبہ ہوا جس میں این آرسی کے ساتھ این پی آر موجودہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| دہلی اسمبلی نے این پی آر اور این آرسی کے خلاف تجویز منظور کی، دہلی ان کی مخالفت کرنے والی گیارہویں ریاست بنی، اہم بات یہ رہی کہ اسمبلی میں 2003 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کرنے کا بھی مطالبہ ہوا جس میں این آرسی کے ساتھ این پی آر موجودہے۔ اور لوکل رجسٹرار کو ڈی ووٹر لکھنے کا اختیار ہے، پارلیمنٹ میں جتنا بھاشن دیا جائے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیوں کہ پارلیمنٹ میں بیانات میں بھی تضادات ہیں۔ سچ وہی ہے جو 2003 کے شہریت ایکٹ میں لکھا ہے۔ جب تک اس ایکٹ سے یہ شق نہیں ہٹتی، اور 2003 کے ایکٹ میں ترمیم نہیں ہوتی اس وقت تک 2010 کے این پی آر کا جھانسہ بھی دھوکہ ہے جیسا کہ نتیش کمار نے لالی پاپ دیا ہے ۔ دہلی اسمبلی نے اس شہریت ترمیمی ایکٹ میں ترمیم پر زور دیاہے جو اہم پوائنٹ ہے۔ دیگر سیکولر ریاستوں کو یہ نکتہ مضبوطی سے اٹھانا چاہیے۔ گوپال رائے، کجریوال، راگھور چڈھا، آتشی، امانت اللہ خان اور شعیب اقبال نے اچھی بحث کی ہے۔ اور بتایا ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ہندوؤں کے لیے بھی کتنا نقصان دہ ہے۔ نیز این پی آر مردم شماری کے لیے نہیں ہورہا ہے۔ مردم شماری 1948 کے ایکٹ سے ہوتی ہے جب کہ این پی آر 1955کے شہریت ایکٹ کے تحت 2003 کی ترمیم سے جڑا ہوا ہے۔ اگر صرف ترقیاتی امور کے لیے ڈاٹا تیار کرنا ہے تو آدھار میں تو تفصیلات لی جاچکی ہیں، اور کسی کو روزگار یا سرکاری اسکیم دینے کے لیے اس کے ماں باپ کی تاریخ ہیدائش اور جائے پیدائش جاننے کی کیا ضرورت ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ این پی آر این آرسی کے لیے ہی ہے ۔ اس کا مردم شماری سے لینا دینا نہیں ہے کیوں کہ دونوں کے ایکٹ الگ الگ ہیں۔ اس پارٹی سے اختلاف کے باوجود ہم کجریوال سرکار کو بہت بہتر مطالبات کے لیے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اسمبلی میں ان کے تمام لیڈروں کی مدلل تقریر سننی چاہیے۔
اگر اسی طرز پر بہار، جھارکھنڈ، مہاراشٹرا، اڈیشہ اور تلنگانہ بھی روک دیں تو بڑا پریشر بنے گا، تجاویز کی حیثیت صرف مشورے کی ہے۔ جب تک عملی طورپر این پی آر روکا نہیں جاتا اور ریاستیں عدم تعاون کا اعلان نہیں کرتیں تب تک ڈھیٹ سرکار سن نہیں سکتی۔ اس کے لیے ملی راہنماؤں کو ریاستوں کے سربراہان سے فوراً ملنا چاہیے۔
این ڈی اے کی حلیف تمل ناڈو سرکار نے بھی این پی آر روکا ہے، کیرل، بنگال، چھتیس گڑھ اور مدھیہ ہردیش بھی روک چکی ہیں۔
رہی بات بہار حکومت کی،شروع سے کہہ رہا ہوں کہ نتیش کمار نے بے وقوف بنایا ہے۔ 2010 کے این پی آر کی بات دھوکہ اورصرف دھوکہ ہے۔ جدیو کے مسلم نما لیڈروں کے بہکانے میں بالکل نہ آئیں، یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں، بنیادی سوال ان سے کرنا چاہیے کہ اگر مرکز اسی این پی آر پر اٹل رہی تو نتیش حکومت کیا کرے گی؟ 2010 کا این پی آر بھی ویسا ہی خطرناک ہے جیسا 2020 کا۔ پرستاؤ پاس کرنے سے زیادہ ضروری پراسیس روکنا ہے۔ اس لیے جدیو کے جھانسے میں نہ آئیں۔ آرجے ڈی، لیفٹ، کانگریس پورا زور لگائیں کہ ریاستی سرکار شہریت ایکٹ 2003 میں تبدیلی تک این پی آر روکے۔ اگر وزیرداخلہ کا بیان سچ ہے تو ڈی ووٹر پر وزارت داخلہ نوٹیفیکیشن جاری کرے۔ اس کے لیے جاری سیشن میں ایکٹ میں ترمیم کرنی ہوگی۔ راجیہ سبھا میں امت شاہ کے بیان پر غلام نبی آزاد کا اظہار اطمینان قابل گرفت ہے، آزاد سمیت اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کرکے امت شاہ کے بیان کا مطلب اور اس کی آئینی حیثیت سمجھانا چاہیے۔

تحریر: محمد شارب ضیاء رحمانی

نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .