۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
ایجادات

حوزہ/کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے یہ تعداد اور بھی تیزی کے ساتھ بڑھتی ہی جاتی اگر دنیا میں مسلمانوں کی تین ایجادات صابن، الکحل اور کورنٹائن(قرنطینہ) نہ ہوتے۔

حوزه نیوز ایجنسیl
کورونا وائرس وبائی بیماری نے پوری دنیا میں خوف و ہراس پھیلادیا ہے، ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے یہ تعداد اور بھی تیزی کے ساتھ بڑھتی ہی جاتی اگر دنیا میں مسلمانوں کی تین ایجادات صابن، الکحل اور کورنٹائن(قرنطینہ) نہ ہوتے۔

اینٹی بیکٹیریل صابن

عالمی ادارہ صحت(who) کی ویب سائٹ پر پہلی سفارش و گزارش کے مطابق،"اپنے ہاتھوں کو صابن اور پانی سے دھونا ... آپ کے ہاتھوں پر لگے وائرس کو مار سکتا ہے۔" عالمی سطح پر COVID-19 پھیلنے کے بعد سے ہی صابن کو ایک نجات دہندہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے، اور ماہرین صحت نے پانی اور اینٹی بیکٹیریل صابن سے باقاعدگی سے ہاتھ دھونے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
جبکہ قدیم بابل میں تقریبا 2800 قبل مسیح میں صابن جیسے مادے کی موجودگی کا ثبوت موجود ہے، لیکن آج کے دور میں استعمال کی جارہی صابن کی پَٹیاں 10 ویں صدی کے دوران مشرق وسطی میں پہلی بار تیار کیا گئی تھیں۔

فارسی معالج، کیمیا دان، اور فلسفی ابوبکر محمد ابن زکریا الرازی (854-925) جنہیں مغرب میں Rhazes یا Rasis کے نام سے جانا جاتا ہے نے صابن بنانے کے لیے کئی کیمیکل ترکیبات کا ذکر کیا ہے، جسکی تھیوری کی بنیادوں پر صابن تیار کیا گیا،اور پھر دمشق سے ہوتے ہوئے عالم اسلام میں اور مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے علاقے سے ہوتے ہوئے صابن کی پیداوار پوری دنیا میں پوری دنیا میں پھیل گئی۔

الکحل

الکحل کو طویل عرصے سے انسان بے ہوشی یا کسی جگہ کو سُن کرنے کے لیے استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ مورخین نے الکحل ڈسٹیلیشن کی دریافت، الکحل ڈرینکس کی تیاری کے لیے 2000 قبل مسیح میں سندھو گھاٹی کی تہذیب سے وابسطہ مانا ہے۔ تاہم،الکحل کو بطور جراثیم کش استعمال کرنے کا جدید طبی استعمال اسلام کے سنہرے دور سے وابسطہ بیان کیا گیاہے۔

اپنے طبی انسائیکلوپیڈیا "الحاوی" میں ’’رازی‘‘ نے سرجری سے پہلے اور سرجری کے دوران اور اسکے بعد زخموں پر الکحل کے اینٹی سیپٹیک استعمال پر دلیلیں پیش کی ہیں۔ جس کے بعد ڈس انفیکشن کا طریقہ بغداد کے پہلے اسپتال میں متعارف کرایا گیا تھا،جسے805 میں ہارون الرشید نے تعمیر کیا تھا۔ یہ عمل سرجری سے گزرنے والے مریضوں کی بقا کی شرح میں اضافے کا باعث بنا اور کامیابی کے ساتھ عالم اسلام میں پھیل گیا۔

الکحل کے جراثیم کشی کے اثر کی دریافت کے نتیجے میں یورپی زبانیں اس مادے کا اصل عربی نام الکحول کو اپنالیا، آج، میڈیکل کی دنیا میں، الکحل کی عالمی مانگ ایک بے مثال چوٹی پر پہنچ گئی ہے۔ ہاتھوں کو کرونا وائرس سے پاک رکھنے کے لئے الکحل پر مبنی اینٹی سیپٹیک جیل ایک لازمی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔

کورنٹائن

مارچ کے آخر میں، دنیا کی آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ کسی نہ کسی طرح کے کورنٹائن میں تھا، دنیا بھر میں بہت ساری حکومتوں نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے بڑے پیمانے پر لاک ڈاؤن پر عمل کروایا۔

آج کے ماحول کی تصویر کی طرح ہی کچھ تاریخی ریکارڈ موجود ہیں جہاں بیماریوں کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کے لئے کورنٹائن کا استعمال کیا گیا تھا جسکی سب سے پہلی تھیوری کا ذکر بو علی سینا کی کتاب‘‘ The Canon of Medicine  ’’القانون في الطب‎‘‘ میں شائع ہوئی،یہ ایک پانچ جلدوں کا طبی انسائیکلوپیڈیا ہے جسے فارسی مسلم پولیمتھ (Polymath)ابن سینا (980–1037) نے مرتب کیا ہے۔

ابن سینا نے 40 دن کی سینیٹری علیحدگی کے ذریعہ متعدی اور چھوت کی بیماری سے بچنے کے لیے ایک طریقہ نامزد کیا تھا۔ انہوں نے اس قانون کا ایک نام رکھا جس کا لفظی طور پر وینس کی ابتدائی زبان میں "کورنٹائن  کا ترجمہ کیا گیا تھا۔

کورنٹائن، اسلامی دنیا کے ہسپتالوں میں ایک لازمی عمل تھا جو کہ جذام کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عمل میں لایاجاتا تھا۔ یوروپ میں، 14 ویں اور 15 ویں صدیوں میں بلیک ڈیتھ طاعون کے دوران، خاص طور پر ٹرانسکونٹینینٹل سوداگروں کی ملاقات کے درمیان کورنٹائن کا استعمال ایک عام بات بن گئی جسمیں چالیس دن کی مدت تک ملاقات کے مقام کو مسافروں اور عملے کے روانگی سے قبل تمام جہازوں کو علیحدہ کرتے ہوئے قرنطینہ کیا جاتا تھا۔
"کورنٹائن" کی اصطلاح اس وقت تک موجود تھی جب تک کہ وباء کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے طریقہ کار کو کامیابی نہیں ملی، اور اب ’’کورنٹائن ‘‘ کی اصطلاح ہر قسم کے سینیٹری الگاؤ پر لاگو  بھلے ہی یہ مدت چالیس دن کی نہ ہو۔

کالم نگار: سیدلیاقت علی 

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .