۲۹ فروردین ۱۴۰۳ |۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 17, 2024
بنگال

حوزہ/ہم پڑوسی ہیں اور ایک ہی زمین پر رہتے ہیں میں اس شخص کی آخری رسومات میں مدد کرنے سے کس طرح انکار کرسکتا ہوں جو سالوں سے میرا دوست تھا جس کے ساتھ میرا اٹھنا بیٹھنا تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ایک طرف، نہ صرف ملک، بلکہ دنیا اپنے طبی جنگجوؤں اور صحت کے کارکنوں کے ساتھ کرونا وائرس سے لڑنے کے لئے عوام کی خدمت میں مصروف ہے جوکہ واقعی قابل قدر ہے۔ لیکن افسوس ناک واقعہ یہ بھی ہے کہ ساتھ ہی ایک اور معاملہ بھی چل رہا ہے، جسے دیکھ کر ملک کے ہر امن پسند انسان کا دل دکھنا طئے ہے اور یقینی طور پر ملک کے کسی بھی پرستار کے دل کو اس سے تکلیف پہنچتی ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب ملک میں ہندو مسلمان ہو رہا ہیں اور تفریق کی سیاست زوروں پر ہے؛ اس وقت بہت ساری برادریوں میں اتحاد کی مثالیں مل رہی ہیں جو دل کو چھو جارہی ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ انسانیت زنده ہے اور نفرت کی سیاست خاک میں مل کر رہ جائے گی۔

رپورٹ کے مطابق کچھ ہی دنوں پہلے ایک مسلمان سبزی فروش کو مارا پیٹا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ جب تک کورونا کی وباء ختم نہیں ہوتی تب تک ہندو اکثریتی علاقے میں داخل نہ ہونا۔اسی دوران بنگال کے ضلع بیربھوم سے یہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ مسلمان اپنے ہندو ہمسایوں کی مدد کے لئے آگے آ رہے ہیں۔ سِری شہر کے رہائشی شیاماشیس چٹرجی کا 9 اپریل کو بیربھوم میں انتقال ہوگیا، انکے بھائی شیباشیش چٹرجی کو اس بات پر سخت تشویش تھی کہ ملک میں لاک ڈاؤن کی صورت حال ہے ایسے میں وہ کس طرح سے آخری رسومات انجام دیں؟

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چٹرجی نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے، میرے رشتہ داروں نے میرے بھائی کی آخری رسومات کے لئے اپنی آمد سے معذوریت کا اظہار کردیا میں نے اپنے بھائی کی آخری رسومات کے لئے اپنے مسلمان پڑوسی سے رابطہ کیا اور وہ فوراً اپنے بیٹے اور کچھ دوسرے افراد کے ساتھ آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے پہنچ گئے۔

پڑوسی، قاضی ابو بادشاہ نے کہا کہ، ہم پڑوسی ہیں اور ایک ہی زمین پر رہتے ہیں میں کیسے انکار کرسکتا تھا۔ میں اس شخص کی آخری رسومات میں مدد کرنے سے کس طرح انکار کرسکتا ہوں جو سالوں سے میرا دوست تھا جس کے ساتھ میرا اٹھنا بیٹھنا تھا؟ قاضی ابو بادشاہ نے کہا ہے کہ وہ میرا دوست تھا، وہ گردے کی تکلیف میں مبتلا تھا اور اسکا علاج چل رہا تھا۔

مرنے والے کے بھائی نے کہا کہ میں ہمیشہ مسلمان بھائیوں کا احان مند رہوں گا۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانیت ابھی بھی زندہ ہے۔ چٹرجی نے کہا کہ جب بھی قاضی ابو اور ان کے بیٹے ملتے تھے تو وہ انکے بھائی کے بارے میں پوچھتے اور انکی خیر خبر لیتے رہتے تھے۔ 

واضح رہے کہ ایسے بہت سارے معاملات منظر عام پر آئے ہیں جہاں مسلم برادری کے لوگ اندور، جے پور اور ممبئی وغیرہ میں اپنے ہندو ہمسایوں کی آخری رسومات میں آگے آتے رہے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .