حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا سید غافر رضوی چھولسی دہلی نے کہا کہ ہر سمت مظلوموں کے سروں پر ظلم و تشدد کے منڈلاتے ہوئے بادل بتا رہے ہیں کہ ان کے خاتمہ کے لئے کسی آفتاب کو طلوع ہونا پڑے گا۔
اگرچہ ہم جیسے کمزور انسانوں میں آفتاب بن جانے کی صلاحیت نہیں لیکن کم سے کم اپنی توان کے مطابق اتنا تو کرسکتے ہیں کہ اندھیر نگری میں آفتاب اور اجالوں کے حامی ہوجائیں!.
یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ مظلوم کے دل سے نکلی ہوئی آہ عرش الٰہی کے پائے ہلا دیتی ہے۔
مولانا نے کہا کہ کون صاحبِ عقل اس بات کو نہیں جانتا کہ ظالم کا ساتھ دینا بھی ظلم ہے اور ظلم پر خاموش رہنا بھی ظلم ہے؟کسی کے ظلم پر خاموشی کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس ظلم سے راضی ہیں!. کیا ہمیں یہ گوارا ہے کہ ہمارا شمار ظالموں کی صفوں میں ہو؟
اس سوال کے جواب میں ہر صاحبِ ادراک یہی کہے گا کہ ہرگز نہیں... ہم تو انصاف اور عدالت کے ساتھ رہنا چاہیں گے! تو پھر دنیا میں چار سو ہوتے ہوئے ظلم کے مقابل خاموشی کیوں سادھے ہوئے ہیں؟ اِس پر آشوب دور میں گاندھی جی کا بندر بننے سے کام نہیں چلے گا بلکہ انصاف کی آواز اٹھانا ہر انسان کا فریضۂ عینی ہے.
کیونکہ انصاف چاہنے کے لئے آواز احتجاج بلند کرنا عینِ انسانیت ہے۔
حوزہ علمیہ قم کے طالب علم نے کہا کہ اپنے منھ میاں مٹّھو بننے والے انسانیت کے ٹھیکیداروں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ تم حقوق انسانی کے جھوٹے دعوے کرتے رہتے ہو لیکن انسانیت کا خون سب سے زیادہ تمہارے ہی معاشرہ میں دکھائی دیتا ہے۔
یہ نسل پرستی، یہ قوم پرستی، یہ رنگ و روپ کا امتیاز... اور ان جیسی متعصبانہ فکر کی باتیں انسانیت سے کوسوں دور ہیں۔
تمہیں حقوق انسانی کے متعلق آواز اٹھانے کا حق کس نے دیا؟ پہلے یہ سمجھو کہ انسانیت کا مطلب کیا ہے؟ جب انسانیت کا مطلب سمجھ میں آجائے تو خود کو انسانی سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش کرو، اگر کچھ فیصد ضمیر کی صدا آئے کہ تم انسانیت کے راستہ پر گامزن ہوچکے ہو تو اس وقت کچھ فیصد یہ حق بھی حاصل کرلوگے کہ انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھاؤ۔
مولانا غافر رضوی نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر ہم انسانی حقوق کا دعویٰ کرتے رہیں اور انسانیت کا خون ہوتا رہے تو یہ "چراغ تلے اندھیرا" کا مصداق قرار پائے گا۔
عراق ہو یا فلسطین، کشمیر ہو یا امریکہ، افغانستان ہو یا یمن... غرض دنیا کا کوئی سا گوشہ ہو... ظلم ہر جگہ ظلم ہے اور انسانیت ہر جگہ انسانیت ہے یعنی اگر دنیا کے کسی گوشہ میں انسانیت پر ظلم ہو رہا ہے تو دنیا بھر کی انسانیت کا فرض بنتا ہے کہ ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے.
خداوند عالم نے قرآن مجید میں ظالموں کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: "وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ" (سورہ شعراء/۲۲۷).
اور جن لوگوں نے ظلم کیا وہ عنقریب جان لیں گے کہ کس طرح انقلاب آتا ہے۔
یعنی ان کا ظلم دیرپا نہیں ہے بلکہ ان سے بہت جلد ایک ایک ظلم کا بدلہ لیا جائے گا۔
مولانا نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السلام نے بھی نوک نیزہ پر مذکورہ آیت کی تلاوت کرکے یہ سمجھا دیا کہ خون سر چڑھ کر بولتا ہے(تفسیر نور الثقلین)
امام مظلوم نے دنیا کو انگشت بدنداں کردیا کہ آخر قتل کون ہوا ہے! کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ انسان قتل کے بعد کلام کرسکے؟.
جی ہاں! مظلومیت ایسی شئے کہ اگر مظلوم کے دل سے آہ نکلتی ہے تو وہ فلک شگاف ہوتی ہے لہٰذا ہمیں مظلوموں کی حمایت میں صدائے احتجاج بلند کرکے یہ ثبوت دینا چاہئے کہ ہم ظالم کے ساتھی نہیں بلکہ مظلوم کے حامی ہیں، کہیں ہماری خاموشی ہماری ہلاکت کا سبب نہ بن جائے!.
آخر میں دعا کرتے ہوئے کہا کہ خدارا انسانیت پر رحم کیجئے اور انسانیت کو اسی ڈگر پر قائم رہنے دیجئے جو انسانیت کی ڈگر ہے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھائیے تاکہ آپ کا شمار ظالموں کی صفوں میں نہ ہو۔