حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے جامعہ بنوریہ العالمیہ کراچی کا دورہ کیا۔ وفد میں علامہ محمد عباس وزیری، علامہ سید صادق تقوی اور جناب امجد حسین بھٹو شامل تھے۔ جامعہ بنوریہ العالمیہ کی جانب سے مفتی نعمان نعیم، مفتی فرحان نعیم اور چند معزز اساتذہ کرام نے وفد کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔
امتِ واحدہ پاکستان کے وفد نے مفتی محمد نعیم کے انتقال پر ان کے خانوادہ سے اظہارِ تعزیت کیا اور ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی۔ اِس اہم ملاقات میں قومی مسائل بالخصوص مسلم امہ کی یکجہتی کے حوالہ سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ شرکاء کی جانب سے فرقہ واریت اور معاشرتی بےراہ روی کے خاتمہ اور مختلف مکاتبِ فکر بالخصوص شیعہ سنی مشترکات پر باہمی تعاون کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ اِس کے علاوہ تعلیمی اداروں اور علمی مراکز کو قریب لانے کے لئے منظم اور باقاعدہ کام کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ یہ بھی طے پایا کہ مسالک کے درمیان علمی متون اور کتب کے موضوعات سے آشنائی کے لئے خصوصی اہتمام کیا جائے گا۔
اس مقصد کے تحت علماء کرام کے وفود علمی مراکز کے دورے کریں اور ایک دوسرے کے نظامات کا مشاہدہ کیا جائے۔ عالمی استعمار کی طرف سے اسلام کو کھوکھلا کرنے کی سازشوں اور مسالک کو آپس میں لڑانے کے لئے جو فتنے پیدا کئے جا رہے ہیں، ان فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مشترکہ جدوجہد کی جائے۔ تمام شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مدرسہ اسلامی تہذیب اور دینی معارف کی بنیاد ہے اور مدارس کے ذریعے ہی اسلامی اقدار کا تحفظ ممکن ہے۔ اسی لئے عالمی استعمار اور طاغوتی طاقتوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مدارس کو نشانہ بنایا جائے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں مدارس کے خلاف مغربی مہم کا آغاز ہوا اور دیسی لبرلز نے بھی اس مہم جوئی میں حصہ لیا، دونوں کا مقصد ان دینی مراکز کو نقصان پہنچانا تھا، لیکن اب بھی یہ خطرہ ٹلا نہیں۔ دشمن کا اپنے سابقہ عزائم پر عمل جاری ہے۔ اس خطرہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسلامی اقدار کی حفاظت کے لئے تمام مسالک کے علماء کرام کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔
فرقہ وارانہ ماحول اور مسلکی امتیازات سے بالاتر ہو کر اللہ کی وحدانیت، رسول کی رسالت، قرآن کی حقانیت اور معاد کی قطعیت جیسے مشترکات کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا اور اس حوالہ سے امتِ مسلمہ کے مفاد کی خاطر ایک مشترکہ موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔
عالم اسلام میں بڑھتے ہوئے مسائل بالخصوص اسرائیل کے لئے مسلم دنیا میں گنجائش پیدا کرنے کی شعوری کوشش کے مقابلہ میں بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مقابلہ اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک علماء کرام اور اہلِ دانش متحد نہ ہوں۔ مشترکہ جدوجہد کے لئے فروعی اختلافات کو پس پشت ڈالنا اور اپنے مکتب فکر تک محدود کرنا ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے رہنماء اپنے مکتب کی روشنی میں اس مکتب کے بارے میں رائے قائم کریں۔ جھوٹ، تعصب اور پروپیگنڈا پر مبنی لٹریچر کی اشاعت و تقسیم سے گریز کیا جائے۔ ملاقات کے اختتام پر آپس میں مل بیٹھ کر اور افہام و تفہیم کے ساتھ ایک دوسرے کی معتبر شخصیات اور مشترکہ علمی نصاب سے استفادہ کرنے پر اتفاق ہوا۔