حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی مدیر قرآن و عترت فاونڈیشن، علمی مرکزقم، ایران نے علامہ مرحوم کے فرزند محترم حجت الاسلام و المسلمین آقای مجتبیٰ مصباح یزدی کے ہاتھوں وصیت نامہ علامہ مرحوم پایا۔
علامہ مرحوم کے وصیت نامہ میں جو مطالب آپکے دست مبارک سے لکھے پیش ہوئے ہیں وہ اسطرح ہیں۔
''ہماری قبر پہ ۴۰ شب سورہ قرآن پڑھا جائے''اور ہمارے گھر پر فرش عزا بچھائی جائے اور امام حسین(ع) پہ گریہ کیا جائے تاکہ امام حسینؑ اور وقت کے امام زمانہ عج کی یاد سے گھر نورانی ہوسکے۔
مکتب اہلبیت علیہم السلام کے سچے عاشق نے اپنے وصیت نامہ میں یہ بھی لکھا کہ جو کچھ بھی مال دنیا چھوڑ کے جارہا ہوں اسکا تیسرا حصہ، یتیم، مسکین، صلہ رحمی اور پڑوسیوں کی مہمانی میں خرچ کی جائے۔
علامہ طاب ثراہ نے وصیت نامہ میں جن اہم مطالب کو بیان کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں؛
(۱)میرا ایمان خدا کی وحدانیت، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی امامت پر ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ خداوند عالم نے ائمہ اطہار علیہم السلام کے ذریعے دین حق کو سبھی پہ عیاں کیا تاکہ ہر بشر لذتِ اخروی سے سرشار ہوسکے۔
(۲) میں بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، ۱۲ امام، معصومؑ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارہ جانشین پر ایمان رکھتا ہوں اور انکے دشمن سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں، خدایا! ہمیں بھی اہلبیت علیہم السلام کے سچے اور حقیقی شیعوں میں قرار فرما۔
(۳)اسمیں کوئی شک نہیں، موت حق ہے، میزان حق ہے، رجعت اور قیامت حق ہے، میں اس بات پہ گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو کچھ لیکر آئے وہ حق ہے، قرآن و عترت یہ ایک ایسی گرانقدر شئ ہے جس سے متمسک ہونے پر نجات اور چھوڑ نے پہ جہنم کی آگ ہے۔
(۴)میں ایک گنہگار انسان محمد تقی یزدی وصیت نامہ لکھ رہاہوں جو الطاف الہیٰ کی امیدیں، اسکے غضب سے دوری، اولیاء معصوم(ع)، اور چودہ معصومین(ع) کی شفاعت کی بھر پور امید رکھتے ہوئے اپنے نورچشم فرزند ارجمند علی کو اسی چیز کی وصیت کررہا ہوں جن چیزوں کو خداوند عالم نے اپنے اولیاء اور اوصیاء کو نصیحتیں کی ہیں۔
(۵)یاد رکھنا! میں،توکل، صبر استقامت، توسل، تقوی اور پرہیزگاری کی سفارش کرتا ہوں کیونکہ اسکے علاوہ کوئی شئ عبادت اور اطاعت خداوندی نہیں؟ اسے بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ خداوند عالم کے نزدیک علم و عمل کے حصول کے علاوہ بہترین چیز کوئی اور نہیں اسی طرح خداوند عالم کی معرفت اور اسکی نازل شدہ اساس پر توجہ اور تحصیل اس زمانہ میں ایسا ہے جیسے جہاد فی سبیل اللہ کرنا بلکہ اس سے بھی بڑھکر۔ کیونکہ میدانی دشمن کا مقابلہ بھی ہو جاتا ہے لیکن جہل سے مقابلہ سخت ہوا کرتا ہے، اسلام کی حفاظت، فاسد عقیدوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور اسلام کی باتوں کو صحیح سے پیش کرنے سے خداوند عالم کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے، میں بارگاہ ایزدی میں دست بہ دعا ہوں کہ میرے بچے علی اور انکے بھائی اسی راہ پہ گامزن ہوکرکامیاب ہوں[آمین]۔
(۶)میں اپنے ان بچوں کو سستی سے دور رہکر اخلاص وعمل، مجاہدت اور مرد میدان کی منزل کو پانے کی امیدکرتاہوں۔
(۷)میری ساتویں وصیت یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے ہمیشہ قرآن خوانی، دعاؤں سے انسیت، وقت کے امام عجل پر کاملا ایمان و یقین اور عزاداری امام حسین علیہ السلام برپا کیا کریں
(۸)میری آٹھویں وصیت یہ ہے کہ میرے بچوں! اپنی والدہ کا خاص خیال رکھنا کیونکہ ماں کے پیر کے نیچے جنت ہے، اور اپنے چھوٹے بھائی مجتبیٰ، بہنیں اور صلہ رحمی کا خاص خیال رکھیں، مزید پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا، اور تمام اساتیذ خصوصا استاد علم کلام اور معلم اخلاق کے ساتھ اچھے برتاو کی نصیحت کرتاہوں۔
(۹)نویں وصیت،میرے فرزند! میرے مغفرت کی دعا ضرور کرنا کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو تمھارے لئے بھی فائدہمند ہے، میں خداوند عالم سے اس راہ میں کامیبابی کے لئے دعاگوہوں، مالک حقیقی بڑا ہی مہربان اور بخشنے والا ہے۔
(۱۰)دسویں وصیت،میں ہمیشہ اپنے بچوں کو اچھے اور بلند افکار،ہمیشہ سجدہ شکر، ہوا و ہوس سے دوری، دنیا سے بے رغبتی، دنیوی عہدہ و مقام سے کنارہ کشی، اور تقویٰ اور پرہیزگاری کی وصیت کرتا ہوں۔
(۱۱)گیارہویں وصیت، قناعت اور سادہ زیستی ہماری پہچان اور شناخت ہے، کوشش رہے کہ معاشرے میں رایج شدہ لوگوں کے طمع اور لالچی پن سے دور رہیں، دوسروں کے بجائے پروردگار سے امید کی لولگے، راہ الہیٰ کو پانے میں ہر ممکن کوششیں ہوں، جب کوئی چیز مل جائے توکہہ سکو اسے سوچا بھی نہیں تھا، اور جو چیز چاہتا تھا نہ ملے تو کہہ سکو قرار نہیں تھا یہ مل سکے میں ان امور پر بھرپور یقین رکھنے کی وصیت کرتاہوں۔
(۱۲)بارہویں وصیت، صبر و رضا اور قضائے الہیٰ کی بھی وصیت کرتاہوں، میرے فرزند ارجمند کوشش رہے کہ خداوند عالم کی خشنودی حاصل کرنے میں تمام توانیاں صرف ہوں، میرا مولا وآقا اس چیز سے بھی بالاتر اور کریم ترہے کہ میرا چاہنے والا میری کرامت پہ بھروسہ کرے اور میں کسی اور کی طرف توجہ دوں، ایک بار پھر میں اپنے بچے کو وصیت کرتا ہوں کہ فقط معبود حقیقی سے لولگانا اسکے علاوہ کسی اور سے نہیں،خداوند عالم کے حضورمیں مناجات، دعا و نیایش کے ذریعے ایسے پہنچو جو پہچنے کا حق ہے، میں بارگاہ ایزدی میں بوسیلہ آل محمدؑ دست دعابلند کرتاہوں پروردگارا! میرے فرزند علی اور مجتبیٰ کو ان امور مذکورہ میں کامیابی عطا فرما!
بتاریخ ۲۳/۱۰/۱۳۹۹ کو مجتمع آموزش فقہ عالی کے ثقافتی مسئول دکتر صرفی مدظلہ العالی نے تاکید کی اب چونکہ اردو زبان میں اس عظیم نعمت کا ترجمہ ہوچکا ہے لہذا برصغیر کے ہر عاشقان ولایت کے لئے یہ عظیم معنوی تحفہ ہے، گزارش ہے! اس آخرتی تحفہ کو لیکر اسے ضرور عمیق نگاہی سے مطالعہ کریں۔