تحریر: فدا حسین بالہامی کشمیری
حوزہ نیوز ایجنسی । رمضان المبارک ۴۰ ہجری کو بوقت ِ سحر نمازِ فجر کے دورانمسجد کوفہ کے محراب میں "باب العلم " کو عبدالرحمان ابن ملجم نے منہدم کر دیا۔حضرت علی علیہ سلام علم و عبادت کے کامل نمونہ تھے اور اسی اعتبار سے آپ کے تمام دشمن جہل و بغاوت کے پیکر تھے۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کوشہر ِ علم کا دروازہ قرار دیا تھا۔دراصل علم اللہ کی معرفت کا ایک اہم ذریعہ ہے اور یہی علم ہے کہ جو بندے کو اس کے معبود کی شان و کبریائِی سے روشناس کراتا ہے۔اور اسے اس کی عبادت و اطاعت کے قابل بناتا ہے۔ برعکس اس کے جہل ایک بندے کو حتماً اس کے اپنے خالق کی بغاوت پر اکساتا ہے۔شیخ سعدی نے ٹھیک ہی کہا ہے
کہ بے علم نتواں خدا را شناخت
یعنی جاہل خدا کو پہچاننے سے قاصر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جس کو جو نہ جانے وہ اس کی کیا مانے۔یعنی ماننے کے لئے جاننا لازمی ہے۔اسی اعتبار سے جو شخص اپنے معبود کو جانتا ہی نہ ہو۔وہ اس کی اطاعت کیسے کر سکتا ہے۔
پس یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ "حق الیقین " کی منزل تک پہنچنے کا" واحد ذریعہ "علم الیقین" ہے ۔گویا "حق الیقین "اگر منزل ہے تو "علم الیقین" جادہ ہے۔ اور جادہ یعنی راستہ کے بغیر منزل کا تصور بھی عبث ہے۔یہی وجہ ہے کہ باب العلم یعنی شاہ ِ ولایت حضرت علی علیہ سلام "حق الیقین "کے اس مقام پر پہنچے تھے ۔جہاں پہنچ کر آپ نے فرمایا کہ "میں اس خدا کی عبادت کیسے کر سکتا ہوں کہ جس کو میں نے نہ دیکھا ہو البتہ اسے ظاہری آنکھوں کی بصارت سے نہیں دیکھا جا سکتا ہے بلکہ دیدارِ رب کے لئے بصیرت ِ قلب چاہئے۔"کمال ِ بصیرت سے آپ علیہ السلام نے جمالِ پروردگار کا مشاہدہ کیا تھا۔ توفرمایا " "
لو كشف الغطاء ما ازددت يقينا
یعنی ایمان کی اس منزل پر پہنچ گیا ہوں کہ" اگر میرے اور میرے معبود کے درمیان تمام پردے ہٹا دئیے جائیں تو میرے ایقان و ایمان میں مزید اضافہ نہیں ہو گا۔"
دوسری جانب آپ کے دشمن جہالت کی راہ پرگامزن ہو کر بغاوت کی منزل پرپہنچ گئے۔نتیجتاً ان کو علم و عبادت سے سخت عداوت تھی اور اسی عداوت میں قاتلِ امیرالمومنین بھی جل بن گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عین عبادت کے دوران ہی اس نے باب العلم کو شہید کردیا۔
یہ سلسلہ یہیں پر رکا نہیں بلکہ قاتلِ امیرالمومنین عبد الرحمٰن ابن ملجم کے وارثوں نے جہل و بغاوت کے اس ورثہ کو نسل در نسل منتقل کیا ۔ اور ابن ملجم کے وارث آج بھی اپنے رول ماڈل کے طرز عمل کو ہی اپناتے ہیں۔اسے حسنِ اتفاق کہیں یا سوئے اتفاق کہ ایام ِ شہادت امیرالمومنین کے دوران ہی انہوں نے افغانستان میں پہلے علمی مرکز پر علی علیہ السلام کے نام لیوا کئی ایک کم سن طالب علموں کو موت کے گھاٹ اتارکر علم کو قتل کرنے کی ایک بار پھر ناکام کوشش کی ۔ اور پھر روزِ ضربت ِ امیرالمومنین علیہ السلام مسجد پر حملہ کر کے بہت سے نمازیوں کو شہید کر کے یہ ثبوت دیا کہ آج بھی جہل و بغاوت کے لئے علم و عبادت دردِ سر ہے۔