۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
کتاب "زینب کبریٰ (س) ولادت سے رحلت تک  " کا رسم اجر

حوزہ/ قرآن وعترت فاونڈیشن علمی مرکز قم ،ایران کی جانب سے کتاب "زینب کبریٰ س ولادت سے رحلت تک" جسکے مصنف حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا علامہ مبین رضوی ہیں کی رونمائی علماء و افاضل قم المقدسہ ایران کے ہاتھوں انجام پائی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ماہ ذی القعدہ وہ ماہ کرامت ہے جسمیں خداوند عالم نے تمام بشریت کے لئے سلسلہ امامت کا آٹھواں ہادی ورہنما علی بن موسیٰ الرضا واخت الرضا  جیسی نعمت سے نوازا ، جہاں اس ماہ میں دنیاکے ہر گوشہ وکنارمیں سبھی اس کرامت سے فیضیاب ہوئے وہیں پر قرآن وعترت فاونڈیشن علمی مرکز قم ،ایران نے ایک علمی پروگرام کانعقاد کیاجوکتاب کارسم اجراء تھا،کتاب کی رونمائی علماء و افاضل قم المقدسہ ایران کے ہاتھوں انجام پائی، جس کتاب کی رونمائی کیلئے علماء و محققین نے انتخاب کیا اس کتاب کانام زینب کبریٰ س ولادت سے رحلت تک ہے۔

اس کتاب کے برجستہ مترجم علامہ مبین رضوی قبلہ وکعبہ نے بیان کیا کہ لائق ستائش ہے وہ ذات جس لائق ستائش ہے وہ ذات جس نے بشریت کی ہدایت کے لئے معصوم ہادیوں کا سلسلہ رکھا، درود و سلام ہو رسول ؐ اور آل رسولؐ پر۔حق و باطل  کی جنگ اور نور و ظلمت کی آنکھ مچولی ابتدائے خلقت کائنات سے ہے اور یہ  افکار ہمیشہ برسر پیکار رہے گا صرف  محاذ اور میدان بدلے ہیں مگر مقصد ایک تھا۔یعنی ہر فکر دوسری فکر پر غالب آنا چاہتی تھی ، یہ ایک فطری عمل ہے کہ جنگ ، اسلحہ ، محاذ جیسے الفاظ سنتے ہی ذہن انسانی میں تصور ’’مرد‘‘ کا آتا ہے اور عورت کو ان سب چیزوں سے دور جانا جاتا ہے لیکن! یہ بھی مسلم ہے کہ جہاں ہر محاذ و میدان میں کوہ عزم اورصاحبان ایمان نے اسلامی فکری اور عقیدتی سرحد کی حفاظت کی ہے وہیں صنف نازک نے اپنے آپ کو دور نہیں رکھا۔ کبھی ان جیالوں کو پاک گودیوں میں پال کر تو کبھی میادین جنگ میں مردوں کی شانہ بشانہ رہ کر اسلام کی حفاظت کی۔ جیسا کہ کربلا حق و باطل کے ٹکراؤ کا بہترین نمونہ ہے۔ جس میں کائنات کی برترین اور شریف ترین ذات اور امام وقت (امام حسین ؑ ) کا خون بہا...اور کشتی اسلام ساحل حیات سے جا لگی ۔مگر تاریخ نے یہ بھی لکھا ہے کہ مکہ سے کربلا تک، مردوں کے ساتھ کچھ عصمت مآب بیبیاں تھیں جو ہر قدم پر ساتھ ساتھ تھیں، اور ان میں نمایاں نام حضرت زینب کبریؑ کا ہے ۔سرکار سید الشہداء سمیت تمام حسینی جیالوں نے کربلا میں منزل لے لی تھی، مگر ابھی سفر جاری تھا ، جس کی عصمتی رہبری امام سجادؑ کے ہاتھوں میں تھی اور جو امام سجادؑ کی کفالت کررہی تھیں وہ زینب کبریؑ تھیں ۔ نجاست و خباثت کے نچوڑ یزیدنے سوچا تھا کہ مردوں کو قتل کرکے مقصد حسین ؑ مٹا دیں گے ، مگر ...اس کی بھول تھی۔ نقشہ بالکل پلٹ گیا اور اس کی رسوائی طشت از بام ہوگئی ۔قارئین محترم!یہ کتاب’’حضرت زینب ولادت تا شہادت‘‘ جو آپ کے ہاتھوں میں ہے علامۃ الدہر نابغہ روزگار سید کاظم قزوینی کی عالمانہ عرق ریزیوں کا نتیجہ ہے ۔ آپ نے شہزادی زینب  کبریؑ کی حیات پر سیر حاصل بحث کی ہے اور مختلف پہلوؤں سے آپ کی حیات پر روشنی ڈالی ہے ۔ اس کی افادیت کا علم تو اس کے مطالعہ کے بعد ہی ہوگا۔

اس اہم کتاب کی رونمائی سے قبل سرزمین ایران کے عظیم اور نامور عالم دین حجةالاسلام والمسلیمن آقای قاسمیان نے ثانی زہراس حضرت زینب  س کے عنوان سے لوگوں کوخطاب کیا ، آپ نے اس کتاب کے مطالب کوبھی بہت ہی دقت اور غوروفکر  سے لوگوں کومطالعہ کرنے کی تاکید کی،آپ نے کتاب کے مطالب  کو پڑھتے ہوئے فرمایا! ۔ کبریٍؑ خاندان رسالت کی دوسری عظیم خاتون ہیں آپؑ کی بابرکت زندگی فضائل اور کرامات سے بھرپور ہے۔ اسباب بزرگی و جلالت ، قداست اور روحانیت آپؑ میں موجزن تھی اور قدرت ،قابلیت اور ترقی کے اسباب آپؑ میں پائی جاتیں تھیں ۔اسی لئے آپؑ کی نورانی زندگی کا ہر صفحہ لائق تحقیق و جستجو ہے، ایک رخ سے ان  کی حیات کا مطالعہ، اللہ کے عظیم اولیاء میں سے ایک ولی کی حیثیت سے سبب عبادت اور تقرب الہی کا ذریعہ ہے دوسری جانب سے ،اس عظیم خاتون کی حیات طیبہ میں تحقیق و تدبر سبھی لئے مفید درس عبرت ہے جو کہ انسانی حیات کے بہت سارے پہلووں کے لئے معاون و مددگارہے۔

پوری دنیا میں طب اسلامی کا پرچم لہرانے والے حضرت آقای قاسمیان مد ظلہ العالی بزرگ ژکصت حضرت مصطفیٰ قزوینی کے مطالب کو لوگوں کے سامنے بیان کیا اور فرمایا!کیا کہنا عظیم شخصیت علامۂ دہر،خطیب یکتا سید محمد کاظم قزوینی کا۔ علامہ قزوینی ایک حسینی نمایاں خطیب اور اجتماعی قادر الکلام مقرر تھے، جس کے سبب وہ حضرت زینب کبریٰ کی زندگی کے مطالعہ کے بعد مفید نتائج تک دسترسی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔شاید جب پہلی بارعلامہ مرحوم کے ذہن میں حضرت زینبؑ کے سلسلہ میں کتاب تحریر کرنے کا خیال آیا تھا، اس وقت ۱۳۹۶ ہجری کا کوئی ایک دن تھا جن دنوں سیدہ کونین حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حیات پر کتاب تألیف فرما رہے تھے، لیکن کچھ رکاوٹوں کے سبب یہ کام جلدی انجام نہ پاسکا  ۔یہاں تک کہ ۱۴۰۹ہجری میں ارادہ کیا کہ حضرت زینب کبریؑ کی حیات پر ایک کتاب تحریر کریں ۔علامہ قزوینی نے پوری کوشش کی کہ شہزادی کی حیات سے متعلق تمام تاریخی مطالب کو جمع کریں جو واقعہ کربلا سے پہلے مربوط ہیں اور اس کا تجزیہ کریں، اس لئے کہ یہ عظیم شہزادی تقریبا ۵۶ سال کربلا سے پہلے با حیات تھیں اور یہ تاریخی زمانہ آپؑ کی حیات میں بہت سارے واقعات اور حادثات سے بھرپور ہے اور ان تمام ایام میں آپ نے اہم کردار ادا کئے ہیں آپ بہت ہی عظیم شخصیت کی مالکہ تھیں میدان مشکلات کی شہزادی ، بہادر مقرر ، خواتین اہل بیت کی قافلہ سالار بلکہ تمام مؤمنات کی پیشوا تھیں ۔علامہ قزوینی نے انتھک کوشش کی تاکہ اس عظیم شہزادی کی حیات سے متعلق تاریخی مطالب جمع کریں لیکن افسوس کہ آپ ایک لاعلاج بیماری سے دوچار ہوئے جو آپ میں بہت تیز سرایت کرنے لگی ۔اور اس کتاب کی سرعت تحریر آہستہ کردی بلکہ بہت آہستہ کردی یہاں تک کہ اس کتاب کی چند فصلوں کی تألیف کئے بغیر دعوت حق پر لبیک کہا ۔ٓپ نے اس کتاب کے چند صفحات کو ’’کویت ‘‘کے ابن سینا نامی ہاسپیٹل کے بستر بیماری پر تحریر فرمایا ہے جن دنوں آپ کچھ طبی چیک اپ کے لئے وہاں ایڈمیٹ تھے ۔آپ دو دلیلوں کے تحت بہت مشتاق تھے کہ اس کتاب کو مکمل کردیں :۱۔ جو آپ نے خواب دیکھا تھا ۔۲۔ جو بیماری آپ کو لاحق تھی اس کے سبب وفات کے خطرے منڈلارہے تھے ۔جو خواب آپ نے دیکھا تھا وہ یہ تھا کہ اس کتاب کی تألیف کے دوران جب آپ نےفصل ’’حضرت زینبؑ ‘‘تحریر کررہے تھے تو عظیم فقیہ جناب حسین قمی متوفی ۱۳۶۷ہجری ، کو خواب میں دیکھا کہ وہ آپ کی طرف آئے اور بہت ہی گرم جوشی سے گلے لگایا اور کہا ’’قَبَّلَ اللہُ یَدَکَ ‘‘ یعنی اللہ آپ کے ہاتھ کو چومے یا ’’اِنَّ اللہَ یُقَبِّلُ یَدَکَ‘‘ یعنی خدا تمہارے ہاتھ کو چومتا ہے۔سید بزرگوار خواب سے بیدار ہوتے ہیں چونکہ یہ خواب بہت اہم تھا آپ اس کی بہت فکر میں لگ گئے۔ چنانچہ آپ خود تعبیر خواب سے آگاہ تھے لیکن ایک ماہر تعبیر خواب سے مراجعہ کیا انہوں نے فرمایا: کیا آپ نے امام حسینؑ کے قریبی افراد جیسے زوجہ یا ان کی بہن کے لئے کچھ کام کیا ہے ۔ سید قزوینی نے فرمایا :ہاں! میں زینب کبریؑ کی حیات طیبہ پر ایک کتاب لکھنے میں مشغول ہوں ، انہوں نے فرمایا: آپ  نے امام حسینؑ کی رضا کے لئے کام انجام دیا ہے اور (خداتمہارے ہاتھ کو چومتا ہے) معنی یہ ہیں کہ جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہ قبول ہوگیا ہے ۔جس وقت والد محترم اس کتاب کو تألیف کررہے تھے مجھے حکم دیا کہ میں اس کو گھر لے جاؤں اور نہایت ہی دقت نظر کے ساتھ اسے دیکھوں اور اگر مطالعہ کے دوران کوئی تجویز اور مشورہ ہو تو میں اسے بیان کروں ۔ٓپ کی وفات کے بعد میں نے سوچا کہ اس کتاب میں جو کچھ آخر عمر میں والد محترم نے اصلاحات انجام دیں تھیں اسے مکمل کروں ۔اس کام کی بھی دو وجہ تھی جس کے سبب میں نے خود پر واجب جانا:۱۔ حضرت زینب ؑکبری کی بارگاہ عالیہ میں ایک خدمت کرسکوں ۔ ۲۔ اپنے باپ کی روح کو شاد کرسکوں ۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسید شمع محمدرضوی نے مولف محترم کے سلسلے سے لکھے ہوئے مطالب کوفرمایاکہ! اس کتاب میں ایسی عظیم خاتون کا تذکرہ ہے جو ۱۳۵۰ سال پہلے زندگی بسر کررہی تھی اور اس کی زندگی ہر لحاظ سے تاریخ کی تمام خواتین سے ممتاز تھی وہ حضرت زینب کبریؑ بنت حضرت امام علی امیر المومنینؑ ہیں ،وہ نوادر کائنات کی ایک نادر ذات ہے، مخلوقات الہی کی عظیم نشانی ہے، تمام عظمتی نشانیوں کا مجموعہ اور افتخار تاریخ ہیں۔ اگر تمام اسباب عظمت اور وجہ شرافت کو تمام انواع و اقسام میں بشریت کے لحاظ سے جمع کریں تو ہم دیکھیں گے کہ سب کے سب یا ان کی اکثریت حضرت زینب کبریؑ میں پائی جاتی ہے ۔اگر اس عظیم خاتون کی زندگی کو قانون وراثت کے لحاظ سے دیکھیں تو ہمیں ملے گا کہ آپ کے گرد شرافت و جلالت نے ہالہ ڈال رکھا ہے وہ کمال و شرف جو آپ کی والدہ گرامی کے علاوہ کسی عورت کو حاصل نہیں ہے اور نہ حاصل ہوگا اور نہ ہی اس کے حاصل ہونے کی اب امید کی، جاسکتی ہے، وہ امیر المومنینؑ کی بڑی بیٹی ہیں، وہ مولا جو کائنات کا دوسرا عظیم شخص ہے، وہ رسول ؐ کے بعد دنیا کا شریف ترین انسان ہے جس پر آسمان نے سایہ کیا ہے اور زمین نے اپنی پشت پر اس کا وجود اٹھایا ہے ۔اس خاتون کی ماں فاطمہ زہراؑ ہیں جو دونوں عالم کی خواتین کی سردار اور کائنات میں شریف ترین اور برترین خاتون ہیں ۔کیا کہنا چاہیئے اس ماں کے بارے میں جس نے ایسی عظیم بیٹی کائنات بشریت کو عطا کی وہ عظیم بیٹی جس نے ارتقائے عقل اور کمال ہوش و ذکاوت کے ساتھ آذوقۂ فضیلت کو کائنات کی عظیم ترین خاتون سے حاصل کیا اور رسول کی بیٹی و حبیبہ و عزیز کے دامن میں پرورش پائی ۔یہ بیٹی اپنے ماں باپ کے حیات کا حاصل و نتیجہ ہے جن کی زندگیوں میں مکارم اخلاق اور نمایاں خصوصیات روز روشن کی طرح منور ہے اور ان کے صفحات زندگی کا ہر صفحہ انسانوں کے لئے عظیم افق کھولتا ہے تاکہ اپنے طائرہ فکر کو اس میں حکم پرواز دیں اور اس آسمان میں فضیلت کے ستارے چمکیں ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .