حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،انسانی حقوق کمیشن بلوچستان چیپٹر کے چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ 2020 کے دوران صوبے سے 73 لاشیں برآمد ہوئیں جن میں لاپتہ افراد بھی شامل تھے۔
بدھ کو کوئٹہ میں ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے سالانہ رپورٹ پیش کرنے کے موقع پر پریس کانفرنس کے دوران حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے یہ بات ہمارے مشاہدے میں آئی کہ بعض واقعات میں متاثرہ خاندانوں نے الزام عائد کیا کہ انہیں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر انہوں نے اپنے رشتہ داروں کی گمشدگی کی اطلاع دی تو انہیں سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔
حبیب طاہر نے کہا: ’یہی وجہ ہے کہ جو اعداد و شمار ہمارے پاس آتے ہیں، اصل میں جبری گمشدہ افراد کی تعداد اس سے زیادہ ہے، جو خوف کی وجہ سے سامنے نہیں آتے ہیں۔‘
لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان میں ایک عرصے سے چلا آرہا ہے، جن کی بازیابی کے لیے کوئٹہ پریس کلب کے باہر ان افراد کے اہل خانہ کا احتجاجی کیمپ بھی طویل عرصے سے جاری ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے 2018 میں کیے گئے وعدے کے باوجود جبری گمشدگیوں کو ایک علیحدہ اور مکمل جرم قرار دینے سے متعلق بل کو اب تک منظور نہیں کروایا جاسکا۔
سالانہ رپورٹ میں بلوچستان میں ہونے والے دیگر واقعات اور جرائم پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق: ’ملک بھر میں ایک اندازے کے مطابق بچوں سے زیادتی کے 2960 واقعات قلم بند ہوئے جبکہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔‘
یاد رہے کہ بلوچستان میں ایک انتہائی بہیمانہ واقعے میں ضلع قلعہ عبداللہ میں ایک آٹھ سالہ بچے کی درخت سے لٹکی ہوئی لاش برآمد ہوئی تھی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ اسے دو افراد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
گذشتہ سال بلوچستان میں بعض واقعات کی وجہ سے دارالحکومت کوئٹہ احتجاجی مظاہروں کا مرکز رہا۔ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں تربت میں طالب علم حیات بلوچ کے ماورائے عدالت قتل اور مبینہ طور پر ایک مقامی ڈیتھ سکواڈ سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہاتھوں ملک ناز نامی خاتون کی ان کی بیٹی کے سامنے قتل کے خلاف مظاہرے بھی شامل تھے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سیاسی اختلاف رائے رکھنے والی کریمہ بلوچ کی کینیڈا اور ساجد حسین کی سویڈن میں اموات، دو بلوچ صحافیوں شاہینہ شاہین اور انور جان کھیتران کا قتل بھی بلوچ آوازوں کے غیرمحفوظ ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔
رپورٹ میں عدلیہ کے حوالے سے بتایا گیا کہ 2020 کے آخر تک 21 لاکھ مقدمات زیر التوا تھے، جس کے مقابلے میں 2019 میں یہ تعداد 18لاکھ تھی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مطابق سندھ، پنجاب اور خیر پختوںخوا کے سابق قبائلی اضلاع میں جنگجوؤں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ایسے واقعات میں کمی دیکھی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2020 کے دوران خودکش حملوں میں نمایاں کمی ہوئی، لیکن ٹارگٹ کلنگ بڑھ گئی ہے۔ 2019 میں ہونے والے 24 حملوں کے مقابلے میں 2020 میں ایسے 49 واقعات ہوئے۔
رپورٹ میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حوالےسے بتایا گیا کہ ان کے کام کے حالات میں کوئی واضح بہتری نہیں دیکھی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق: ’2020 میں کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے 134 مزدور حادثات میں زندگی گنوا بیٹھے۔ ان میں سے زیادہ اموات بلوچستان میں ہوئیں۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’اس کے باوجود پاکستان نے ابھی تک آئی ایل او کنونشن 176 کی شق کی توثیق نہیں کی جو کان کنوں کی حفاظت کے لیے گہرائی کی حد کا تعین کرتی ہے۔‘
انسانی حقوق کمیشن نے صوبائی حکومتوں سے ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ وہ آئی ایل او کنونشن 144 کے تحت سہ فریقی لیبر کانفرنس کا انعقاد کریں۔