۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
علامہ ساجد نقوی

حوزہ/ قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام اسلام کا پیغام پھیلانے میں جو روشیں بروئے کار لارہے تھے وہ بالکل منفرد اور اپنی مثال آپ تھیں، آپؑ نے قرآن کی بنیادی حیثیت پر زور دیا اور قرآن ہی کو روایات کی کسوٹی اور صحیح اور غیر صحیح کی تشخیص کا معیار قرار دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے15ذی الحج کودسویں امام حضرت امام علیؑ نقی کی ولادت کے موقع پر کہاکہ آپؑ 34 برس تک امامت کے منصب پر فائز رہے اور امام ہادی کے نام سے بھی مشہور ہیں ۔

علامہ ساجد نقوی کا کہنا تھا کہ آپ سے منقول احادیث کا زیادہ حصہ اہم کلامی موضوعات پر مشتمل ہے ۔علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ امام نقی ؑ کی امامت کا وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ بعثت کے اہداف و مقاصد اور امام ؑ کا ہم عصر معاشرے اور حکمرانوں کے درمیان بڑا فاصلہ حائل ہوچکا تھا اور آپؑ گھٹن کے اس دور میں رسول اللہ کے اہداف کے لئے کوشش کر رہے تھے اور اللہ کی عنایت خاصہ سے اس عجیب طوفان اور مبہم صورت حال میں کشتی ہدایت کو ساحل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور آپ نے ہدایت و ارشاد اور ابلاغ و تبلیغ کے عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر اسلام کے آفاقی معارف و تعلیمات کی نشر و اشاعت میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مختلف روشوں اور مختلف فرقے اسلامی معاشرے کو گمراہ کرنے میں مصروف تھے اور بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ گویا امامت کا نظام مغلوب ہوچکا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر آج امام ہادی ؑ کے گرانقدر آثار ہمارے درمیان موجود ہیں تو یہ اس تصور کے بطلان کی دلیل ہے۔

جو روشیں امام ؑاس دور میںاسلام کی آفاقی فکر پھیلانے میں بروئے کار لارہے تھے وہ بالکل منفرد اور اپنی مثال آپ تھیں۔ آپؑ نے قرآن کی بنیادی حیثیت پر زور دیا اور قرآن ہی کو روایات کی کسوٹی اور صحیح اور غیر صحیح کی تشخیص کا معیار قرار دیا۔ تمام اسلامی مکاتب فکر اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ آپ ؑ نے مختلف علاقوں میں وکلاءتعیین کر کے اپنے پیروکاوں سے رابطے میں رہے اور انہی وکلاءکے ذریعے مسائل کو بھی حل و فصل کیا کرتے تھے۔

زیارت جامعہ کبیرہ جو حقیقت میں امامت سے متعلق عقائد کے عمدہ مسائل اور امام شناسی کا ایک مکمل دورہ ہے، آپؑ ہی کی یادگار ہے۔ائمہ اطہار ؑ کا علم سر چشمہ و علم الہٰی سے تعلّق رکھتا ہے اسی وجہ سے وہ دوسروں سے ممتازہوا کرتے ہیں اور کسی میں جرئت نہیں ہوتی تھی کہ علمی میدان میں ان کا مقابلہ کرسکے اور جو شخص بھی سامنے آتا تھا وہ آخرکار شکست کھا جاتا تھا اور اپنی کم علمی کا اعتراف کرلیتا تھا۔مام علی نقی علیہ السلام تقریبا 29 سال مدینہ منورہ میں قیام پذیررہے آپ نے اس مدت عمرمیں کئی حکمرانوں کازمانہ دیکھا تقریبا ہرایک نے آپ کی طرف رخ کرنے سے احترازکیا یہی وجہ ہے کہ آپ امورامامت کوانجام دینے میں کامیاب رہے آپ کی کرامات بے شمارہیں ۔
 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .