۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
حجت الاسلام والمسلمین سید ساجد علی نقوی رئیس شورای علمای شیعه پاکستان

حوزہ/ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے دین کے خلاف پھیلائے گئے شہبات اور انحرافات کا مضبوط اور بہترین استدلال سے قلع و قمع کیا، آپؑ نے معاشرے کے اصلاح کیلئے منصوبہ بندی کیساتھ اسی روش و طریقے پر اپنی جدوجہد کو جاری رکھا جو آپؑ کے والد گرامی کی تھی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی 7 صفر حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقع پر کہتے ہیں کہ امام موسیٰ کاظمؑ سخاوت، صبر اور شجاعت کے مظہر تھے اور امام ؑنے اپنے بچپن اور نوجوانی پر مشتمل تربیت کا زمانہ اپنے والد بزرگوارؑ کے زیر سایہ گذارا اور 20 سال اپنے والد کے ہمراہ رہے۔ امامؑ کے آغاز نوجوانی سے ہی نابغہ روزگار ہونے کے آثار ان کے کردار و گفتار سے نمایاں اور سخاوت، بردباری، درگزر اور علم انکی شخصیت کی نمایاں صفات حمیدہ شمار ہوتی ہیں۔ علامہ ساجد نقوی کا کہنا ہے کہ امام موسیٰ کاظمؑ نے اپنے آبا و اجداد کی سیرت و کردار پر عمل پیرا ہو کر قرآن کریم کی حقیقی تفسیر، اسلام کی تعبیر و تشریح اور اسلامی معارف کی روشن تصویر کو حقیقی معنوں میں اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے میں امامت اور حاکمیت کے مسئلے کو واضح کیا اور اسی طرح عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کیلئے سعی و کوشش کی، جس کی خاطر پیغمبر گرامی (ص) اور دیگر انبیائے کرامؑ مبعوث ہوئے۔

علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ امامؑ کی زندگی سے ایک بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ کہ امام موسیٰ کاظمؑ نے دین کیخلاف پھیلائے گئے شہبات اور انحرافات کا مضبوط اور بہترین استدلال سے قلع و قمع کیا اور انسانیت کیلئے ہدایت کے راستوں کو روشن اور واضح کر دیا۔ امامؑ نے فضل بن یونس سے فرمایا کہ ”ابلغ خیراً و قل خیراً، لوگوں تک خیر پہنچاﺅ اور خیر ہی کہو“۔ انہوں نے مزید کہا کہ حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ کی امامت کا آغاز ایک مشکل ترین زمانے میں ہوا، جلاوطنی اور مشکلات سے پُر مراحل میں بھی امامؑ نے عزم و استقلال اور جرات و بہادری سے مصائب کا مقابلہ کیا۔ ایسی شخصیات جو حالات کے مطابق معاشرے کی رہنمائی کیلئے دین کی تشریح اور حالات کے مطابق اسلامی معارف بیان کر رہی ہوں اور معاشرے کی بہترین خدمت و سرپرستی کر رہی ہوں انہیں کبھی جلاوطنی، کبھی اسیری اور کبھی روپوشی جیسے حالات کا سامنا کر نا پڑتا ہے چناچہ ایک روایت کے مطابق ”ایک مدت تک امام موسیٰ کاظم ؑ مدینہ میں موجود ہی نہ تھے بلکہ شام کے گاﺅں و دیہاتوں میں گزر بسر کرتے رہے۔

علامہ ساجد نقوی نے آئمہ اطہارؑ کی سیرت و کردار اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امام جعفر صادقؑ نے معاشرے کی اصلاح کیلئے منصوبہ بندی کے ساتھ جس روش و طریقے پر اپنی جدوجہد کو جاری رکھا ہوا تھا اسی راستے پر امام موسیٰ کاظم نے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔ آخر میں علامہ ساجد نقوی کہتے ہیں کہ سخت و دشوار ترین دور میں بھی ضرورت مندوں اور محتاجوں کو امام ؑ نے فراموش نہیں کیا، زندگی میں مشکلات تو سبھی کے ہاں آتی ہیں لیکن امام ؑ کا عمل یہ بتاتا ہے کہ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم مشکلات کے باوجود مشکلات میں گھر جانے والے ضرورت مند و محتاجوں کی مشکلوں کو آسان کرتے ہیں، لہذٰا ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ جتنا ممکن ہو سکے امام ؑ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے غریبوں، محتاجوں اور ناداروں کا خیال رکھیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .