۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
ایمن اردگان

حوزہ/خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کا یہ صحیح وقت ہے اور دنیا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ٹیکس کو ایک بڑے ذریعہ کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔خواتین کو معاشی اور سیاسی بااختیار بنانے سے دنیا میں عدل و انصاف کے ماحول میں بہتری آئے گی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،استنبول: ترکی کی خاتون اول ایمن اردگان نے خواتین کی مکمل صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔

استنبول میں 12ویں باسفورس سربراہی اجلاس کے لیے ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ خواتین کو معاشی اور سیاسی بااختیار بنانے سے دنیا میں عدل و انصاف کے ماحول میں بہتری آئے گی۔

انٹرنیشنل کوآپریشن پلیٹ فارم (ICP) کے زیر اہتمام دو روزہ سربراہی اجلاس پیر کو شروع ہوا۔

اس سربراہی اجلاس میں بین الاقوامی اقتصادی تعلقات، اسلامی مالیاتی سرمایہ کاری، جدت طرازی اور ہوابازی کی پائیداری سمیت متعدد مسائل کا احاطہ کیا جائے گا۔

خاتون اول نے اس بات پر زور دیا کہ ایک بہتر دنیا کا امکان ایک کثیر جہتی مسئلہ ہے جس کے لیے معیشت سے لے کر سیاست تک اور ثقافت سے لے کر ماحولیات تک بہت سے شعبوں میں کوششوں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ وبائی امراض کی وجہ سے دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ "یہ تیز رفتار تبدیلی خود کو زندگی کے تمام شعبوں میں ظاہر کرتی ہے، ہمیں یہ دیکھنے کے لیے انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ مستقبل کیا لائے گا، بلکہ مستقبل کی تشکیل کریں تاکہ ہر کوئی منصفانہ زندگی گزار سکے۔"

اجلاس میں شامل لبنان کی سابق وزیر اطلاعات منال عبدالصمد نے اپنی تقریر میں کہا کہ وبائی مرض نے خواتین کو نادانستہ طور پر صنفی برابری کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

آکسفیم کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ خواتین نے دنیا بھر میں 64 ملین سے زائد ملازمتیں کھو دی ہیں، جو کہ 800 بلین ڈالر بنتی ہے۔جس سے"پوری عالمی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ دوسرا، اگر حکومتیں اہم عوامی خدمات کو یقینی بنانے کے لیے اپنی برادریوں کو مناسب فنڈز سے محروم کرتی ہیں، تو خواتین سب سے پہلے نقصان میں ہوں گی۔"

انہوں نے یہ بھی کہا کہ خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کا یہ صحیح وقت ہے اور دنیا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ٹیکس کو ایک بڑے ذریعہ کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ٹیکس پالیسیوں کا مقصد بنیادی طور پر ایسی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو اقتصادی ترقی اور پائیدار ترقی کو فروغ دیتی ہیں، اس بات پر غور کیے بغیر کہ یہ پالیسیاں صنفی مساوات کے فرق کو کس حد تک بڑھا رہی ہیں،"

انھوں نے مزید کہا، ٹیکس میں صنفی عدم مساوات عام طور پر ہر معاشرے کے بنیادی سماجی نمونوں اور عقائد کی آئینہ دار ہوتی ہے۔

انھوں نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا،"اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی ملک معاشرے میں صنفی خلا کو پُر کیے بغیر خواتین کو کاروبار میں آگے بڑھانے کے لیے کام نہیں کر سکتا،"۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .