۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
رہبر انقلاب اسلامی

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آئين کي دفعہ ايک سو دس کی پہلی شق کے مطابق پر اور تشخیص مصلحت نظام کونسل سے مشورے کے بعد سوشل سیکورٹی کی جنرل اور منظور شدہ پالیسیوں کا نوٹیفکیشن، عمل درآمد کے لیے مقننہ، مجريہ اور عدليہ کےسربراہوں اور اسی طرح تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سربراہ کے نام جاری کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آئين کي دفعہ ايک سو دس کی پہلی شق کے مطابق پر اور تشخیص مصلحت نظام کونسل سے مشورے کے بعد سوشل سیکورٹی کی جنرل اور منظور شدہ پالیسیوں کا نوٹیفکیشن، عمل درآمد کے لیے مقننہ، مجريہ اور عدليہ کےسربراہوں اور اسی طرح تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سربراہ کے نام جاری کیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کے حکمنامے اور نظام کی کلی پالیسیوں کے نفاذ سے متعلق شق نمبر "ج-1" کی رو سے، مجریہ کا فرض ہے کہ وہ مجلس شورائے اسلامی اور عدلیہ کی مدد سے اور متعلقہ اداروں کی خدمات لیتے ہوئے چھے مہینے میں ان پالیسیوں کے نفاذ کا جامع پروگرام پیش کرے جس میں بل پیش کرنا اور قوانین اور ضروری اجرائي اقدامات کی منظوری شامل ہے۔

یاد رہے کہ سوشل سیکورٹی سسٹم کی جنرل پالیسیوں کا نوٹیفکیشن نظام کی کوششوں کو ہمہ گيری و یکجہتی عطا کرنے اور اس شعبے کو تیز رفتار بنانے کے لیے جاری کیا گيا ہے اور ایک اہم دستاویز کی حیثیت سے اس کی اہمیت اور جامعیت کے پیش نظر اس کے نفاذ کے لیے موجودہ قوانین و ضوابط میں بنیادی تبدیلیوں اور اس میدان میں سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

سوشل سیکورٹی کی جنرل پالیسیوں کا نوٹیفکیشن حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوشل سیکورٹی کی جنرل پالیسیاں

سماجی بہبود و آسائش پیدا کرنا، غربت و محرومیت کا خاتمہ، بے سرپرست، کام کرنے سے معذور، اپاہج اور ضعیف العمر افراد سمیت، سوشل سروس کے ٹارگٹ طبقوں اور صنفوں کی حمایت اور جو کچھ آئین کی دفعات 3، 21، 28، 29، 31 اور 43 میں سوشل خدمات اور بہبود و آسائش کے ٹارگٹ طبقات کے سلسلے میں بیان کیا گيا اس کی حمایت اس بات کی متقاضی ہے کہ معاشرے کی سماجی ضروریات کی تکمیل کے لیے اسلامی و ایرانی آئيڈیلز سے ماخوذ اور کارآمد دفتری نظام، غیر ضروری ادارہ جاتی امور کے خاتمے، ناروا امتیازی رویے سے عاری اور عوامی مشارکت پر استوار ایک کارآمد، توانائی بخش، انصاف پر مبنی، با وقار اور جامع نظام تیار اور نافذ ہونا چاہیے اور اس میں درج ذیل نکات کی پابندی کی جانی چاہیے:

  • جامع، مساویانہ، شفاف، کارآمد، ہمہ گیر اور کثیر جہاتی سوشل سیکورٹی نظام کا قیام۔
  • متعلقہ امور کے ڈسپلن اور انٹگریٹی کے تحفظ، سروسز کی درجہ بندی، کاموں کی انجام دہی کو یکساں بنانے، امدادی، حمایتی اور انشورینس کے میدانوں میں سرگرم اداروں، فنڈز اور تنظیموں کی تشکیل اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور ڈیٹا سینٹر کی تشکیل کی غرض سے مسلح فورسز اور ملک کے سیکورٹی اداروں کی سیکورٹی ہدایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ماہر اور جامع سسٹم کی تیاری۔
  • حقوق کی پاسداری، جنریشنل کمٹمنٹس پر عملدرآمد اور جنریشنل مالی گارنٹی سے عاری پروجیکٹس کو مسلط نہ کرنا، پائيدار ذخائر کی فراہمی، انشورنس محاسبات کی پابندی، ذخائر اور اخراجات کے درمیان توازن، عوام کے حق سے متعلق اموال کی حیثیت سے انشورنس کرنے والے اداروں اور فنڈز کی قدر کی حفاظت اور اس میں اضافہ اور ضروری سسٹم کی تشکیل کے ساتھ امانت داری، سیکورٹی، منافع اور شفافیت پر تاکید۔
  • انصاف کی فراہمی، انشورنس کے قوانین و ضوابط کو یکساں بنانے، حکومت کے قرضوں اور ان میں اضافے کو روکنے اور انشورنس کے ضوابط پر عمل نیز گارنٹڈ مالی ذخائر کی فراہمی کے لیے سوشل انشورنس کے اداروں اور فنڈز کے قوانین، ڈھانچوں اور سسٹم کی اصلاح۔
  • امدادی، حمایتی اور انشورنس کے امور کی درجہ بندی اور مندرجہ ذیل ترتیب سے گنجائش اور استحقاق کی بنیاد پر حکومت کی فعال کارکردگي کے ساتھ سروسز کی سطح بندی:
  • انشورنس، عوامی مشارکت اور سرکاری امداد کے ذریعے امدادی امور کی انجام دہی۔
  • غربت اور سماجی مشکلات کو دور کرنے کے مقصد سے امدادی و حمایتی امور اور سرکاری، عمومی اور عوامی وسائل و ذرائع کی مدد سے خدمات کی بنیادی سطح کو یقینی بنانا۔
  • انشورنس کرانے والوں، آجروں اور حکومت کے حصے سے معاشرے کے تمام افراد کی صورتحال کے حساب سے ان کے لیے بنیادی انشورنس کے امور کی انجام دہی۔
  • انشورنس کرانے والوں اور آجروں کی مشارکت سے کمپیٹیشن کے ماحول میں مالی سہولتوں اور سرکاری حقوق کی پشت پناہی کے ساتھ مالیاتی سرپلس اور سپلیمنٹری انشورنس کے امور کی انجام دہی۔
  • ملازمین، ریٹائرڈ افراد اور بے روزگاری بھتہ لینے والوں کو ملنے والی رقم کو متوازن بنا کر سماج کے کمزور طبقوں کی قوت خرید کی حفاظت۔
  • کم سہولتوں والے شہری محلوں اور دیہی اور قبائلی علاقوں سے غربت اور سماجی مسائل کی واضح علامتوں کو دور کرنے کے لیے مناسب روش اختیار کرنا۔
  • سماجی انصاف کی فراہمی اور فروغ، سبسڈیز کو بامقصد بنا کر طبقاتی فاصلے میں کمی، سوشل سروسز تک معاشرے کے تمام افراد کی رسائي، کارآمد، ایمپاورمنٹ، روزگار کی پیدائش اور عمومی ذخائر سے بہرہ مند ہونے میں غلط امتیازی کاموں کا خاتمہ۔
  • نیکوکاری اور مالی امداد کے قومی نظام کا قیام اور عوامی اور ذمہ دار اداروں کی گنجائشوں کے درمیان تال میل۔
  • گھرانے کی اکائي کے استحکام اور افزائش نسل کے لیے ضروری خدمات کی فراہمی۔
  • ملک کے بڑے پروگراموں اور پروجیکٹس کے لیے سوشل سیکورٹی کی لگاتار شمولیت۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .