حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی نے جمعرات کی صبح ماہرین اسمبلی کے سربراہ اور اراکین سے ملاقات میں، ماہ شعبان کی عیدوں خاص طور پر امام زمانہ کے یوم ولادت یا شب برات کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس عید سعید کو انسان کی تاریخی امنگوں کی شکوفائي کا دن بتایا اور ماہ شعبان کی معنوی عظمت اور مناجات شعبانیہ کے اعلی مفاہیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ سے خاص لگاؤ رکھتے تھے اور ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم، سبھی کو اس مہینے کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی روحانی توفیق عطا کرے گا۔
آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے رہبر انقلاب کا انتخاب کرنے والی ماہرین اسمبلی یا مجلس خبرگان کو اسلامی نظام کے استحکام میں اہم کردار کا حامل بتایا اور کہا: مجلس خبرگان سمیت تمام آئینی اداروں کے مؤثر ہونے کی شرط، اپنی ان ذمہ داریوں اور حدود پر عمل درآمد ہے، جو آئين نے ان کے لیے معین کی ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں مزید کہا: ماہرین کی اسمبلی کو اس شخص کے سلسلے میں، جو اس وقت رہبر انقلاب کے منصب پر ہے اور جو بعد میں اسی اسمبلی کے اراکین کے ووٹوں سے رہبری کے لیے منتخب ہوگا، ٹھوس قانونی ضوابط کو نافذ کرنا چاہیے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے حکومت اور پارلیمنٹ سمیت دیگر اداروں کو بھی قانونی ضوابط پر عملدرآمد کا پابند بتایا اور کہا: حکومت کو پارلیمنٹ کے قوانین کی پیروی کرنی چاہیے اور پارلیمنٹ کو بھی اجرائی امور میں ذرہ برابر بھی مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ملکی نظام کا استحکام، قومی قوت و طاقت پر منتج ہوتا ہے اور قومی طاقت ہر ملک کے لیے حیاتی چیز ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہر وہ قوم جو خودمختاری، سرفرازی، اپنے ارادے کی بنیاد پر حیاتی ذخائر سے استفادے اور اغیار کی خواہشات کے مقابلے میں استقامت کی خواہاں ہے، اسے طاقتور ہونا چاہیے ورنہ وہ کمزوری، ذلت اور خوف کے عالم میں ہمیشہ دوسروں کی حریصانہ نگاہ کی طرف سے تشویش میں رہے گی۔
انھوں نے اس سلسلے میں کچھ مثالیں پیش کرتے ہوئے، دشمن کو بہانہ فراہم کرنے سے بچنے کے لیے علاقائي رول کو چھوڑ دینے یا ایٹمی میدان میں سائنسی پیشرفت کی طرف سے آنکھیں بند کر لینے کو قومی طاقت پر ضرب کے مترادف بتایا اور کہا: علاقائي رول ہمیں اسٹریٹیجک گہرائي اور مزید قومی طاقت عطا کرتا ہے تو ہم کیوں اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں؟ سائنسی پیشرفت، مستقبل قریب میں ملک کی ضرورتیں پوری کرے گي اور اگر ہم اسے نظر انداز کر دیں تو پھر کچھ سال بعد کس کے سامنے اور کہاں ہاتھ پھیلائیں گے؟
رہبر انقلاب اسلامی نے پابندیوں سے بچنے کے لیے امریکا یا کسی بھی دوسری طاقت کے سامنے جھکنے کو ایک بڑی غلطی اور سیاسی طاقت پر چوٹ بتایا اور کہا کہ اس سے زیادہ سادہ لوحانہ اور احمقانہ تجویز کوئي نہیں ہے کہ کوئي یہ ہے کہ ہم دشمن کو اشتعال دلانے سے بچنے کے لیے اپنی دفاعی طاقت کو کم کر دیں۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ مختلف اوقات میں اس طرح کی ناپختہ اور غلط تجاویز پیش کی جاتی رہی ہیں جو سب کی سب قابل بطلان تھیں اور انھیں مسترد کر بھی دیا گيا۔
انھوں نے کہا کہ اگر ان لوگوں کو، جو قومی طاقت کے بعض بازؤوں کو کاٹنا چاہتے تھے، اس کام کی اجازت دے دی گئي ہوتی تو آج ایران کو بڑے خطروں کا سامنا ہوتا لیکن خداوند عالم کے ارادے اور لطف و کرم سے ان تجاویز کے عملی جامہ پہننے کا امکان ہی ختم ہو گیا۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق سافٹ وار کا سب سے اچھا اور سب سے موثر ہتھیار، اسلام کے اعلی اقدار و تعلیمات کی تشریح کرنا ہے، آپ نے کہا: معرفتی مسائل، اسلامی طرز زندگي اور اسلامی حکمرانی کی خصوصیات، منجملہ عوامی ہونا، دینی اور عقیدتی ہونا، اشرافیہ کلچر سے اجتناب، فضول خرچی سے پرہیز، ظلم سے اجتناب اور ظلم سہنے سے انکار جیسے صفات کو بیان کرنے کے سلسلے میں ایسی ان کہی، پرکشش اور شیریں باتیں موجود ہیں، جنھیں اچھی طرح سے بیان کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے تشریح اور بیان کے جہاد کا ایک اور پہلو، قوم کی ترقی و کمال کی راہ کو، غلط راستوں سے جدا کرنا بتایا اور کہا: یہ تخصیص خاندانی یا جماعتی مفادات کی بنیاد پر تفریق نہیں ہے بلکہ، اسلام و قرآن پر عقیدے اور اسلامی نظام کی عظیم پیش قدمی کی بنیاد پر صحیح راستے کو، غلط راستے سے الگ اور واضح کیا جانا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں، تشریح اور بیان کے جہاد میں کوتاہی کو، دنیا پرستوں کی جانب سے دین کے بھی غلط استعمال کا سبب بتایا اور زور دے کر کہا: اگر تشریح اور بیان کا جہاد صحیح طریقے سے انجام نہیں پایا تو دنیاپرست لوگ، دین کو بھی اپنی ہوس اور شہوت کی تسکین کا ذریعہ بنا لیں گے جیسا کہ اسلام کے اوائل میں بنی امیہ جیسے گروہ اسی طرح سے کام کر رہے تھے۔
اس ملاقات کی ابتدا میں ماہرین اسمبلی کے سربراہ آيۃ اللہ جنتی اور نائب سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین رئیسی نے اپنے اجلاس میں ارکان کی تقریروں اور تجاویز بالخصوص ثقافتی اور معاشی تشویش کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔