۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
علامہ ساجد نقوی

حوزہ/ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ اقوام متحدہ جیسے ادار ے کو غور کرنا ہوگا کہ وہ کونسی ذمہ داریاں اور کونسے اسباب تھے جن سے خود اس ادارے نے آنکھیں پھیریں ؟ اس جانب یہ توجہ نہ دے سکا یا متوجہ نہ ہونے دیاگیا؟ کہ آج دنیا اس دوراہے پر آکھڑی ہوئی کہ دونوں طرف اسے انسانی تباہی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا؟

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں دنیا میں پائیدار امن اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک اقوام متحدہ جیسا ادارہ بے بسی کی بجائے جرات مندانہ اور توانا آواز کے ساتھ اقدامات نہیں اٹھائےگا، سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ ایک طاقت ور ادارے کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے خیالات ان کی بے بسی اور ناکامی کا اعتراف ہے، اقوام متحدہ جیسا طاقت ور ادارہ عالمی طاقتوں کے سامنے عملاً ڈھیر ہوچکا ، جب سب سے معتبر ادارے کے اعلیٰ عہدیدار کی بے بسی کا یہ عالم ہے تو ماننا پڑے گا کہ رائج ظالمانہ سرمایہ دارانہ، فسطائیت سے بھرپور اور بے بنیاد ”بین الاقوامی مفاد “ کے نام پر چڑھ دوڑنے کانظام دنیا میں مزید تباہی لائےگا ، کیا یہ اقوام متحدہ ہی نہیں تھا جس نے ویٹو پاور کے ذریعے اپنی ”داڑھی“ چند وڈیروں ”عالمی طاقتوں“کے ہاتھوں میں دیدی؟۔صرف کوویڈ ویکسین یا دیگر چند مثالیں نہ دی جائیں انسانی حقوق کی پامالی سے لے کر غذائی قلت تک بے شمار ایسی ظلم کی داستانیں موجود ہیں ، مسلسل اس جانب متوجہ کیا جاتارہا مگر دھیان نہ دیاگیا اور اب خود سیکرٹری جنرل نے اپنے خیالات میں اس کا اعتراف کرلیا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیوگوتریس کے مضمون ”عالمی مسائل کا حل ایک مخمصہ“پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا ۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ اقوام متحدہ کے کرپشن سے پاک دن ہو، انسانی حقوق کا دن ہو، یوم امن ہو، یوم خواتین ہو یا کوئی بھی عالمی دن ، ہم ایک عرصہ سے اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں سمیت سنجیدہ فکر شخصیات کو دنیا باالخصوص انسانیت کو درپیش مسائل بارے متوجہ کرتے آئے، عوام کی مشکلات، ان پر ڈھائے جانیوالے مظالم، انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں و حق تلفیوں،اپنے آلہ کاروں کے ذریعے گھناﺅنے مظالم سمیت کورونا کی بے رحمانہ لہر میں نا انصافیوں کی لمبی فہرست اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم و سامراجی و استعماری سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں گنواتے آئے مگر افسوس اس جانب دھیان نہ دیا گیا اور آج خود کی اپنی زبان سے دنیا کا سب سے طاقت ور ادارہ ان مسائل پر بے بسی کا اعتراف کرتا ہوا نظر آتاہے ۔اقوام متحدہ جیسے ادار ے کو غور کرنا ہوگا کہ وہ کونسی ذمہ داریاں اور کونسے اسباب تھے جن سے خود اس ادارے نے آنکھیں پھیریں ؟ اس جانب یہ توجہ نہ دے سکا یا متوجہ نہ ہونے دیاگیا؟ کہ آج دنیا اس دوراہے پر آکھڑی ہوئی کہ دونوں طرف اسے انسانی تباہی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا؟آج خود اقوام متحدہ نہ صرف بے بس بلکہ سیکرٹری جنرل کے اعترافات کے مطابق بے اختیار نظر آتا ہے مگر کیوں نہ ہو کہ !جس ادارے نے مختلف اداروں میں استعماریت کی اجارہ داری کو جس بھی انداز میں ہو قبول کیا ، ویٹو جیسا عالمی ہتھیار چند عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں دیدیا ہو ، جب انسانی حقوق، ظلم، جبر، دھونس، دھاندلی کی اپنی اپنی تعریفیں کی جائیں جب انصاف کی تشریح اپنے طور پر کی جائے تو کس طرح دنیا میں امن قائم رہ سکتا تھا ؟قدرتی اصول ہے کہ ہر شے نے اپنی اصل کی جانب لوٹناہے اور پھر اس کی کوئی بھی شکل ہوسکتی ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ بے بسی اور بے اختیاری کی زنجیر کو توڑتے ہوئے جرات مندانہ اور توانا آواز کےساتھ اقدامات اٹھائے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .