۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
مولانا تطہیر زیدی

حوزہ/ ماہ مبارک رمضان ہماری تربیت کاسامان لے آیاہے۔ اگر اس میں ہم تربیت یافتہ نہ ہو سکے تو دوسرے مہینوں میں تربیت یافتہ ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ یہ بھوک اور پیاس کا مہینہ ہے۔ اس لئے دوسروں کےلئے احساس پیدا کرنے کا موجب ہے۔ اس مہینہ میں ہمیں فرصت حاصل ہے کہ ہم حلال و حرام الٰہی سے اچھی طرح واقفیت پیدا کر سکیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ حوزہ علمیہ جامعتہ المنتظر کی جامع علی مسجد میں خطبہ جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے حجة الاسلام مولانا تطہیر حسین زیدی نے کہا کہ ماہ مبارک رمضان ہماری تربیت کاسامان لے آیاہے۔ اگر اس میں ہم تربیت یافتہ نہ ہو سکے تو دوسرے مہینوں میں تربیت یافتہ ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ یہ بھوک اور پیاس کا مہینہ ہے۔ اس لئے دوسروں کےلئے احساس پیدا کرنے کا موجب ہے۔ اس مہینہ میں ہمیں فرصت حاصل ہے کہ ہم حلال و حرام الٰہی سے اچھی طرح واقفیت پیدا کر سکیں۔

انہوں نے کہا علماءپر معاشرے کی تربیت کی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اتنی ہی علماءکو احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر عاِلم دین زیر و زبر ہو جائے تو پورا عالِم زیر و زبر ہو جاتا ہے۔چنانچہ روایت ہے :جب ایک عالم فاسق ہو جاتا ہے تو عالم یعنی دنیا بھی فاسق ہو جاتی ہے۔ لہٰذا عالم کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان کے استعمال میں محتاط رہے۔ وہ پہلے بات کو تولے اور پھر بولے۔ اگر ایک عالم دین من مانی کرنے لگ جائے تو پھر اس کے علم دین کے سیکھنے کا کیا فائدہ؟

ان کا کہنا تھا کہ ہم جذباتی اور عاطفی مو ¿من ہیں۔ بہت کچھ ایسا کہہ دیتے ہیں جوہمارا مطلب نہیں ہوتا ۔یہ لقلقہ لسانی ہے کہ جو ہم بار بار کہتے ہیں کہ مولا آپ جلد تشریف لائیں۔ العجل، العجل یا و عجل فرجہم کہتے ہیں تو یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ البتہ اگر امام آ گئے تو جو ہمارا میزان الاعمال ہیں اور ہمارے اعمال جب ان کے اعمال کے ساتھ میل نہیں کھائیں گے اور اپنی خواہشات نفسانی پر تلے رہے تو ایک دن کہیں ہاتھ جوڑے یہ نہ کہ بیٹھیں۔ مولا! آپ غیبت میں ہی بہت اچھے تھے۔

مولانا تطہیر زیدی نے نو جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انبیاءکرام کی دعوت کا مرکز جوان اور غریب طبقہ تھا۔آپ علماءسے صرف مسئلہ نہیںبلکہ مسائل کے اصول پوچھا کریں تاکہ ایک مسئلہ کے ذریعہ آپ کے دسیوں مسائل حل ہو سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ذات پروردگار وہ ہستی ہے کہ جس چیز کو چاہے حلال کرے اور جسے چاہے حرام قرار دے۔ مثلا ً اس نے ماں کے دودھ کو دو سال تک انسان کے بچہ کے لئے حلال قرار دیا اور پھر وہی حلال دودھ کو دو سال سے زیادہ عمر کے بچے کے لئے حرام کیا ہے۔ اسی طرح کسی حرام چیز کو خا ص حالات میں ہم پر حلال کر دیتا ہے۔ مثلا ًکوے کا گوشت کھانا ہم پر حرام ہے لیکن اگر انسان مجبور و مضطر ہو جائے تو اس نے مردار کوے کے گوشت کھانے کو ہم پر واجب قرار دیا ہے۔ البتہ اس مقدار تک کہ ہم اس سے اپنی ز ندگی محفوظ رکھ سکیں۔ وہی وہ ہستی ہے کہ جس نے روزوں کے ایام میں کھانا پینا اور کچھ چیزوں کو حلال ہونے کے باوجود اپنی حکمت بالغہ کے تحت ہم پر حرام قرار دے دیا ہے۔ پس یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جاننا اور اس پر عمل ہی تقویٰ ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .