۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
سویرا بتول

حوزہ/ ملک پاکستان میں لاکھوں شیعہ جوان ایسے ہیں جو کال کوٹھڑیوں کی نذر ہوٸے اور کتنے ایسے ہیں جو سالوں سے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔نہ انکا جرم بیان کیا جاتا ہے اور نہ ہی  انہیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔سالوں سے ایک مکتب کو یوں نشانہ بنانا انسانیت سوز عمل ہے۔

تحریر: سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسیشب کا سناٹا جیسے ہی پھیلتا جارہا تھا اُسے مزید وحشت نے گھیر لیا وہ پریس کے شعبے سےمنسلک ایک عام حب الوطن شیعہ عزادار تھا۔اکثر ایک سوال اسے مضطرب رکھتا کہ اگر وہ سن اکسٹھ ہجری کی کربلا میں ہوتا تو کہاں ہوتا؟ معمول کی طرح وہ کارخانے سےواپسی پر اپنے بستر پر لیٹا یہ سوچ رہا تھا جب نیند نے اُسے اپنی آغوش میں لے لیا۔یہ ١١ ستمبر ٢٠١٩ کی شب کا نصف پہر تھا جب اسکے گھر کا دروازہ بری طرح کٹھکٹایا گیا۔سفید لباس میں ملبوس چند افراد چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرتےاسکی دہلیز پر موجود تھے۔اُسے اسکے جرم بتاٸے بغیر بے دردی سے گھسیٹتے یہ اہلکار انسانیت کی تضحیک کرتے پاٸے گٸے۔ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ آج کی کربلا میں اپنے کردار کو سوچ رہا تھا اسے علم نہ تھا کہ اسے مثل سید سجاد اسیری کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہ حقیقی داستان ہے ابرار احمد کی جن کی زوجہ پچھلے تین سالوں سے انکی جبری گمشدگی کےبعد انکی واپسی کی منتظر ہے۔یہ خاتون نہیں جانتی کہ آیا ابرار احمد زندہ بھی ہے یا نہیں؟

آٸیے ایک شیعہ جبری گمشدہ عزادار کی حقیقی داستان سنیں۔میرا نام حسین ہے مجھے بچپن سے اس نام سے عشق ہے۔حسینی ہونا ایک ناقابل معافی جرم ہے اسکا علم نہ تھا۔آج سے چند سال قبل مجھے شب کے نصف پہر اٹھاکر لے جایا گیا۔مجھے ایک تاریک زندان میں رکھا گیا جہاں نہ روشنی کا گزر تھا اورنہ ہوا کا۔پورادن آنکھوں پر پٹی بندھی رہتی اور ہاتھ پس پشت باندھے جاتے۔پورا دن کھڑا رکھا جاتا جس کی وجہ سے ٹانگوں میں شدید درد رہتااگر اجازت کے بغیر بیٹھ جاتا تو مارمار کر کھڑاکردیتے۔جب وہ مجھے مارتے اور میں مدد کے لیے اپنے امام عج کو پکارتا تووہ قہقہے مار کر کہتے کہ تمہارا امام عج تمہاری مدد کو کیوں نہیں آرہا؟ ایسےدردناک قطرے پلاٸے جاتے تھے مجھے کہ میں ٢٤ گھنٹوں تک چیختا رہتا تھالیکن کوٸی میری مدد کو نہ پہنچتا تھا۔اس دوران میرے گھر کا احوال یہ تھا جب مجھے دہشتگرد بنا کر ٹی وی پر پیش کیا جارہا تھا تو میرے بچوں کو اسکول سے نکال دیا گیا،میرے بچے تعلیم سے محروم ہو گٸے۔میری ماں مجھے یاد کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوگٸی۔میرا باپ بستر مرگ پر آگیا میرے گھر کے معاشی حالات مزید خراب ہوگٸے میری بیوی دردر کی ٹھوکرے کھانے پر مجبور ہوگٸ۔میری نوکری میرا کیرٸیر تباہ ہوگیابالاآخر سات سال بعد مجھے میرا کوٸی جرم بتاٸے اور عدالت میں پیش کیے رہا کر دیا گیا آخراس سب کا ذمہ دار کون ہے؟

یہ صرف ایک داستان نہیں ایسی ہزاروں داستانیں ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ہمارے ہزاروں جوان بنا کسی جرم کے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ابرار رضوی کی ڈیڑھ سالہ بیٹی اپنے باپ کی آمد کی منتظر ہے۔ڈیڑھ سالہ بچی روز اپنی ماں سے سوال کرتی ہے کہ بابا کہاں ہیں؟ آخر انکا جرم کیا ہے؟ شمیم حیدر جو پچھلے سات سالوں سے لاپتہ ہیں انکی ضعیف ماں سالوں سے اپنے بیٹےکی آمد کی منتظر ہے۔سیدعلی حیدر زیدی جو اپنے گھر کا واحد کفیل ہے کا شمار بھی شیعہ مسنگ پرسنز میں ہوتا ہے۔سید علی حیدر کے جانے کے بعد انکے اہل و عیال شدید معاشی بحران کاشکار ہیں۔فالج جیسے مرض سے لڑتے سید علی حیدر کے ماں باپ آج بھی اپنے بیٹے کی آمد کے منتظر ہیں۔ سید آفتاب نقوی، ظہیرالدین بابر، واجد حسین، سید قمر عباس رضوی، سید ثقلین جعفری، سید علی حیدر زیدی اور ایسے کئی جوان کال کوٹھڑیوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ تو انہیں انکا جرم بتایا جاتا ہے اور نہ انہیں عدالتوں میں پیش کیاجاتا ہے۔

آئیے ایک نظر ان لاپتہ جوانوں کے جرم پر ڈالتے ہیں،تاریخ گواہ ہے اور خفیہ ایجنسیوں کے سوالات سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ لاپتہ شیعہ جوانوں کا سب سے بڑا جرم حسینی ہونا ہے اور اسی شناخت کے ساتھ پوری دنیا میں پہچانے جاتے ہیں، یا ان جوانوں کو بی بی سیدہ زینب س کے حرم کا دفاع کرنے کے جرم میں لاپتہ کردیا جاتا ہے، ان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ رہبرمعظم اور آقا سید علی سیستانی کے فرمان پر لبیك کہتے ہوئے یہ پاکیزہ جوان داعش سے لڑے، یہ وہی داعش تھی جو نہ صرف شام و عراق بلکہ پاکستان، ایران کے ساتھ پوری دنیا فتح کرنا چاہتی تھی، یہ خونی تنظیم تو پاکستان کو یہودی و وہابی ریاست بنانا چاہتی تھی مگر ان پاکیزہ جوانوں نے گھر بار دوست احباب کو چھوڑ کر وطن عزیز کا دفاع کیا، اگر پاکستان آئین میں مقدسات کا دفاع کرنا جرم ہے تو عقل مند حضرات یہ سوال ضرور اٹھائیں گے کہ حرمین شریفین کا دفاع کرنا کس آئین و قانون کے تحت ہے؟ حالانکہ وہاں حرمین شریفین کو بھی خطرہ نہیں، وہاں تو صرف خانہ کعبہ کے نام نہاد رکھوالوں کو خطرہ ہے۔

بالکل واضح بات ہے کہ مقدسات کا دفاع کرنا ہر شیعہ کا اعتقادی حق ہے، بلکہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ دینی مقدسات کا دفاع کرے۔ بالفرض اگر ان جوانوں کا کوئی جرم ہے تو دین اسلام میں مجرم کے حقوق بھی ہیں، اسلامی تعلیمات میں مجرم کو صرف اس کے انجام دئیے گئے جرم کی سزا دی جائے گی اس کے علاوہ اگر زبان، ہاتھ یا کسی اور طریقے سے اضافی عمل انجام دیا گیا تو اس کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا اور مرتکب فرد کے خلاف کاروائی انجام پائے گی۔ مثال کے طور پر چوری کے ملزم کو مجرم ثابت ہونے ہونے پر صرف چوری کی سزا دی جائے گی۔ اس کو تشدد کا نشانہ بنانا اس سے گالم گلوچ کرنا حتی گرفتاری کے وقت زد و کوب کرنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے لہذا ریاستی اداروں کی طرف سے غیرآئینی طور پر ماورائے عدالت لاپتہ کردینا اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے بلکہ اس سے انسان دشمنی کہا جائے تو بجا ہوگا۔

شیعہ جبری گمشدگی کا سلسلہ ایک بار پھر زور پکڑگیا۔ شیعہ نسل کشی کی طرح شیعہ جبری گمشدگی کاسلسلہ بھی ہنوزجاری ہے۔ایک محتاط انداز کے مطابق رواں ہفتےمیں آٹھ شیعہ جوان شب کی تاریکی میں لاپتہ کیے گٸے اورابھی تک کوٸی پرسان حال نہیں۔ملک میں عدالتیں ہیں، قانون کی بالادستی ہے یوں غیر آٸینی طور پر ماوراٸے عدالت لاپتہ کردینا انسانیت کی تضحیک ہے۔ جبری اغواہ یا لاپتہ افراد پر کیا بیت رہی ہے اور یہ کہاں ہیں؟ ایک کربناک سوال ہے۔ اس کا جواب جن کے پاس ہے وہ اپنے آپ کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے مگر ظلم کا یہ سلسلہ کب تک چلے گا، مظلوم کی آہ اگر آسمانوں کو چیر کر عرش الہی تک پہنچ سکتی ہے تو زمین پر موجود تکبر و غرور کی یہ مٹی کی بتیاں کب تک ان آہوں سے محفوظ رہیں گی۔

ہم اہل جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں
سروں کی فصل جب اتری تھی تب سے واقف ہیں
یہ رات یوں ہی دشمن تونہیں ہماری کہ ہم
درازی شب غم کے سبب سے واقف ہیں
نظر میں رکھتے ہیں عصر بلندی بامی مہر
فرات جبر کے ہر تشنہ لب سے واقف ہیں
کوٸی نٸی تو نہیں حرف حق کی تنہاٸی
جو جانتے ہیں وہ اس امر رب سے واقف ہیں

ہمارے لاکھوں جوان ایسے ہیں جو کال کوٹھڑیوں کی نذر ہوٸے اور کتنے ایسے ہیں جو سالوں سے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔نہ انکا جرم بیان کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔سالوں سے ایک مکتب کو یوں نشانہ بنانا انسانیت سوز عمل ہے اور ناقابل قبول ہے۔
بقول شاعر:
یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے، اسے اُٹھا لو
’’اُٹھانے والوں‘‘ سے کچھ جُدا ہے، اِسے اُٹھا لو
وہ بے ادب اس سے پہلے جن کو اُٹھا لیا تھا
یہ ان کے بارے میں پوچھتا ہے، اِسے اُٹھا لو
اسے بتایا بھی تھا کہ کیا بولنا ہے، کیا نہیں
مگر یہ اپنی ہی بولتا ہے، اِسے اٹھا لو

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .