حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی ایڈیشنل جنرل سیکریٹری علامہ ناظر عباس تقوی نے کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: دعا زہرہ کا کیس انتہائی حساس نوعیت کا ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پوری قوم میں بے چینی واضطراب پایا جاتا ہے۔ ہم کورٹ کے فیصلوں پر نظر انداز ہونا چاہتے ہیں نا انویسٹی گیشن کے اداروں پر۔ لیکن ہمارا صاف اور شفاف مطالبہ یہ ہے کہ اس کیس کو نمٹانے کے لئے جوڈیشل انکوائری وکمیشن قائم کیا جائے۔
انہوں نے اہنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب تک عدالتی فیصلے انویسٹی گیشن کی رپورٹ اور والدین کے ڈاکومنٹس کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان تینوں رپورٹس میں تضاد پایا جاتا ہے۔ والدین کے ڈاکومنٹس کے مطابق نکاح نامے سے دیکھا جائے تو سترہ سال شادی کو ہوئے ہیں۔ میڈیکل رپورٹ سے لڑکی کی عمر 17 سال ہے جبکہ پاسپورٹ اور بے فارم کو دیکھا جائے تو لڑکی کی عمر اس وقت 14 سال ہے۔ یہ ساری چیزیں الجھاؤ کا شکار ہیں لہذا ہم عدالتوں اور انویسٹی گیشن کرنے والے اداروں سے کہتے ہیں کہاس کیس کی شفاف اور آزادانہ انداز میں انکوائری کی جائے۔
علامہ ناظر عباس تقوی نے مزید کہا: وہ عناصر اور قوتیں جو اس کیس پر اثر انداز ہو رہی ہیں اور دباؤ ڈال رہی ہیں، ہم اس دباؤ کو کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے۔ ہم جوڈیشنل انکوائری کا مطالبہ اس لیے کر رہے ہیں تاکہ حقائق عوام کے سامنے آئیں۔ یہ کیس اب کسی ایک خاندان کا نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کا کیس ہے۔ پاکستانی عوام حقائق جاننا چاہتی ہے اس کیس کو اس انداز میں چلایا جائے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوتے نظر آئیں۔
انہوں نے کہا: ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بچی کو والدین سے ملنے دیا جائے۔ اس لیے کہ عدالت میں بچی والدین سے کچھ کہنا چاہتی تھی جس کو نظر انداز کیا گیا۔ بیٹی اپنے والدین اور ماں کے قریب ہوتی ہے۔ اخلاقی،قانونی اور شرعی طور پر لڑکی پر والدین کا حق ہے۔
شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی ایڈیشنل جنرل سیکریٹری نے کہا: پاکستان میں پسندکی شادی پر یکساں قانون ہونا چاہیے۔ مختلف صوبوں میں مختلف قانون ہے لہذا ایک قانون ہونا چاہیے، قانون میں ردوبدل کر کے کم از کم بائیس سال تک بنایا جائے۔
قابلِ ذکر ہے کہ اس پریس کانفر نس میں علامہ قاضی نورانی، علامہ رضی حیدر، علامہ نثار قلندری، علامہ وقار سومانی، عسکری دیو جانی و دیگر شریک تھے۔