۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
پروفیسر شیخ عقیل احمد

حوزہ/ مختلف اداروں کی جانب سے فروغ اردو کے نام پر جو پروگرامز،سمینار وغیرہ منعقد کیے جاتے ہیں اور ان کے ذریعے پروفیسر حضرات کو جو لاکھوں کے اعزازات دیے جاتے ہیں، حقیقت میں ایسے عمل سے اردو کا فروغ نہیں ہوسکتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نئی دہلی/ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد نے اپنے ایک بیان میں اردو زبان کی موجودہ صورتِ حال اور اس کے مستقبل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی زبان اس وقت زندہ رہتی ہے، جب اس کی باضابطہ تعلیم دی جائے اور اس کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔

انھوں نے کہا کہ آج ایک بڑا طبقہ خصوصاً جھگی بستی میں رہنے والی بہت بڑی آبادی ایسی ہے، جس کی تعلیم و تربیت کا کوئی انتظام نہیں، اگر ہمارے غیر سرکاری ادارے ان بچوں کی تعلیم پر توجہ دیں ،انھیں کتاب، کاپی،قلم مہیا کرایا جائے،انھیں تعلیم سے وابستہ کیا جائے اور انھیں اردو زبان سکھائی جائے تو یہ ایک بڑا کام ہوگا اور یہی بچے آگے چل کر نہ صرف مختلف علمی و عملی شعبوں میں نام پیدا کریں گے ،بلکہ یہی ہماری زبان و ثقافت کے بھی محافظ بن کر ابھریں گے،کیوں کہ اردو کے ایلیٹ کلاس کے لوگ اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھانا چاہتے اور ان کے ہاتھوں میں اردو کا مستقبل غیر محفوظ ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر ان پسماندہ علاقوں کے بچوں کو اردو زبان کے تعلق سے بیدار کیا جائے اور انھیں ابتدائی تعلیم دی جائے تو آگے وہ اسکولوں میں بھی اردو پڑھنا چاہیں گے اور اس طرح ان اسکولوں میں بھی اردو تعلیم کا نظم ہوسکتا ہے جہاں ایسا نہیں ہے۔

شیخ عقیل نے کہا کہ مختلف اداروں کی جانب سے فروغ اردو کے نام پر جو پروگرامز،سمینار وغیرہ منعقد کیے جاتے ہیں اور ان کے ذریعے پروفیسر حضرات کو جو لاکھوں کے اعزازات دیے جاتے ہیں، حقیقت میں ایسے عمل سے اردو کا فروغ نہیں ہوسکتا اور اگر ہم نے اپنے رویے میں تبدیلی نہ کی تو آئندہ انھی پروفیسرز، دانشوران اور ناقدین کی کتابوں کو کوئی پڑھنے والا بھی نہیں ملے گا،ان کی کتابیں لائبریریوں میں پڑی دھول کھائیں گی یا دیمک کی نذر ہوجائیں گی، اس لیے ہمیں پہلے سے ہی مشہور اور مادی اعتبار سے خوشحال دانشوروں پر مال و اسباب خرچ کرنے کے بجائے ان بچوں کو اس زبان کی طرف راغب کرنے کی تدبیریں کرنی چاہئیں،جو مختلف وجوہات کی بناپر تعلیم گاہوں سے دور ہیں،ان کی تعلیم کا انتظام کرنا چاہیے اور انھیں اردو سکھانے پر غور کرنا چاہیے کیونکہ یہ بچے ہی ہمارا اور ہماری زبان و تہذیب کا مستقبل ہیں۔ اس تعلق سے قومی اردو کونسل کیا کررہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کونسل ایک سرکاری ادارہ ہے اور اس کا جو ڈائرکٹر ہوتا ہے اس کے اختیارات اور اسکیمیں طے شدہ ہیں، وہ انھی اسکیموں کے تحت زبان یا تعلیم کے فروغ کا کام کرسکتا ہے۔

قومی اردو کونسل پورے ملک میں اردو زبان کی تعلیم کے لیے سیکڑوں سینٹر چلارہی ہے،جہاں ہر سال ڈیڑھ لاکھ بچے اردو سیکھتے ہیں،اس کے علاوہ ہماری ویب سائٹ پر آنلائن اردو لرننگ پروگرام بھی چلایاجاتا ہے، جس سے اب تک 36 ملکوں کے پچاس ہزار سے زائد غیر اردو داں لوگ اردو سیکھ چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم ایسے این جی اوز کو ترجیحی طورپر اردو سینٹر دیں گے جو جھگی جھونپڑی اور آدیواسی علاقوں کے بچوں کو اردو سکھانے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ انھوں نے کہا کہ آج روایتی اردو طبقے کے برعکس غیر اردو داں طبقے میں اس زبان کے تئیں زیادہ جوش، محبت اور لگاؤ پایا جاتا ہے اور وہ اس زبان کو بڑی تیزی سے سیکھ رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ بر صغیر ہند و پاک کے علاوہ یورپ و امریکہ اور مختلف عرب ممالک میں بھی باقاعدہ اردو کی نئی بستیاں آباد ہوچکی ہیں جہاں لوگ محض اپنے ذوق و شوق سے اس زبان کو سیکھ رہے ہیں اور اس کی غیر معمولی خوب صورتی،جاذبیت اور شیرینی سے محظوظ ہورہے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ جو ہمارا اردوداں طبقہ ہے وہ اس زبان کے فروغ کے لیے بنیادی اور ضروری نوعیت کا کام نہیں کر رہا ہے۔

انھوں نے غیر سرکاری این جی اوز اور اصحابِ ثروت باذوق حضرات سے اپیل کی کہ اگر وہ واقعی اردو زبان سے محبت کرتے ہیں اور اسے فروغ دینا چاہتے ہیں، تو سمیناروں اوردیگر نمائشی پروگراموں میں اپنا سرمایہ ضائع کرنے کے بجائے خصوصاً غریب اور جھگیوں میں بسنے والے بچوں میں علم و کتاب کی روشنی پھیلا کر اپنی ثروت، وقت اور توانائی کا صحیح استعمال کریں، قوم و ملک کے لیے بھی ان کا یہ عمل زیادہ مفید اور کارگر ثابت ہوگا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .