۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
آزادی بیان به سبک غربی

حوزہ/ امریکی استکبار اور اس کے مشرقی خالص فکری غلام دنیا بھر میں مغرب کے جمہوری ماڈل کے گن گاتے نہیں تھکتے اور دنیا کو آزادی اظہار کے یورپی بھاشن دینے میں ذرہ برابر بھی تامل کرنا گوارا نہیں کرتے لیکن خود مغرب میں ایسے آزاد منش افراد پائے جاتے ہیں جو اس جمہوری دیو استبداد کی خونخوار ذہنیت پر سوالات اٹھا کر مغربی چنگیزیت کو دنیا بھر میں رسوا کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی صحافی ٹائلر ہینسن نے امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن سے دوران پریس کانفرنس کڑے سوالات کئے تاہم امریکی آزادی بیان کے جھوٹے دعویداروں نے ان کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی صحافی ٹائلر ہینسن کا شمار ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے جو دنیا بھر میں مغرب کے وحشت ناک جرائم کا جائزہ لے کر اس کے تاریک پہلوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق، انہوں نے امریکہ کی قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن کی پریس کانفرنس کے دوران نہایت کڑے سوالات اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ "مسٹر بولٹن ہم آپ پر کیسے اعتماد کریں جبکہ آپ نے عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کا جھوٹا الزام لگا کر عراقیوں کی نسل کشی کی اور تم نے افغانستان میں اپنے جنگی جرائم کی پردہ پوشی کی۔

تم نے یہ کیوں سوچا کہ (امریکی عوام) کو اس طرح کے وحشت ناک جرائم قبول ہیں؟ کیا جنگی جرائم کو برملا کرنے والے جولین آسانج کی گرفتاری پر جشن منانا امریکی عوام کے لئے قابل قبول ہے؟؟ ہرگز نہیں"

مذکورہ امریکی صحافی کے چبھتے سوالات کا جان بولٹن سے جواب نہیں بن پایا تو انہوں نے استہزائیہ انداز میں اسے امریکا کے آزادی بیان کے قانون میں کی گئی حالیہ ترمیم کا اثر قرار دے کر اپنی خفت مٹانے کی کوشش کی۔

یاد رہے کہ ٹائلر ہینسن کے سوالات پر سکیورٹی اہلکار انہیں ہتھکڑیاں لگا کر کانفرنس سے زبردستی باہر لے گئے، کیونکہ وہ آزادی بیان کے امریکی اصول کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹائلر ہینسن کی گرفتاری سے جہاں امریکی استکبار کے آزادی بیان کے دعوے کی حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے وہیں دنیا پر امریکی سامراج اور یورپی استعمار کے جمہوری ماڈل کا دوغلاپن بھی عیاں ہوا ہے، لہذا مشرق کے ثناخوانان تقدیس مغرب کو اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے مغربی جمہوریت کے وحشی پن کی اندھی وکالت سے دستبردار ہوجانا چاہئے، کیونکہ دنیا اب اس جمہوری تماشے کو مغرب کی استحصالی نفسیات کا شاخسانہ سمجھتی ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .