۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
ظفر علی

حوزہ؍ظفر بتاتے ہیں کہ دو ماہ قبل جب ان کی چانچری چوکی میں تعیناتی ہوئی تو دیکھا کہ پڑھنے لکھنے کی عمر کے بچے ادھر ادھر گھوم رہے ہیں، ان بچوں کے والدین بھی ناخواندہ ہیں۔ یہاں کئی طرح کے مسائل تھے، جس کے پیش نظر انہوں نے اسکول چلانا شروع کر دیا۔ ان کی لگن کو دیکھ کر انہیں افسران کی طرف سے اچھا تعاون مل رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق؍گونڈہ ضلع کے نوجوان کانسٹیبل محمد ظفر علی ان دنوں کافی مقبول ہو رہے ہیں اور عوام ہی نہیں تمام افسران بھی اپنے اس سپاہی کی تعریف کر رہے ہیں۔ گونڈہ کے کرنل گنج تھانے کی چانچری چوکی کے نوجوان کانسٹیبل ظفر علی اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد غریب بچوں کو پڑھانے گاؤں جاتا ہے۔ ظفر علی کی باقاعدہ کلاسز ہوتی ہیں اور وہ اس کے لیے کوئی فیس نہیں لیتے۔ اس وقت ظفر علی کی کلاس میں سو سے زیادہ بچے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ظفر علی خود بھی آئی پی ایس بننا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ یو پی ایس سی کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔ گونڈہ پولیس کے کپتان آکاش تومر اپنے کانسٹیبل کے کام سے بہت خوش ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اپنے فارغ وقت کا اچھا استعمال کر رہا ہے۔

محمد ظفر علی تعلیم کا چراغ جلا کر جن غریب بچوں کی زندگیوں کو سنوار رہے ہیں، ان سے ان کا جذباتی لگاؤ بھی ہے۔ دراصل کانسٹیبل محمد ظفر اتر پردیش کے مہاراج گنج ضلع کے رہائشی ہیں۔ اور ان کے والد وصی احمد سلائی کا کام کرتے ہیں۔ والد کے کام میں ان کی والدہ بھی مدد کرتی ہیں۔ ظفر کا کہنا ہے کہ انہوں نے تنگی میں تعلیم حاصل کی۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے وہ غربت کی وجہ سے تعلیم کی کمی کا درد بخوبی سمجھتے ہیں، اس لئے انہوں نے ان بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کا بیڑہ اٹھایا۔

ظفر بتاتے ہیں کہ دو ماہ قبل جب ان کی چانچری چوکی میں تعیناتی ہوئی تو دیکھا کہ پڑھنے لکھنے کی عمر کے بچے ادھر ادھر گھوم رہے ہیں، ان بچوں کے والدین بھی ناخواندہ ہیں۔ یہاں کئی طرح کے مسائل تھے، جس کے پیش نظر انہوں نے اسکول چلانا شروع کر دیا۔ ان کی لگن کو دیکھ کر انہیں افسران کی طرف سے اچھا تعاون مل رہا ہے۔

ظفر جس علاقہ میں تعینات ہیں یہ مکمل طور پر دیہی علاقہ ہے، جسے کافی پسماندہ کہا جا سکتا ہے۔ ظفر شام کو اپنی ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد چوکی کے قریب ایک درخت کے نیچے دسویں جماعت تک کے طلباء کو مفت درس و تعلیم دیتے ہیں۔ ظفر کی کلاس ہر شام چار بجے کے بعد ہوتی ہے اور ہر شام پڑھنے کے لیے آنے والے بچے ہجوم کی شکل میں ایک درخت کے نیچے جمع ہوتے ہیں۔ ظفر بنیادی طور پر بچوں کو ریاضی اور سائنس پڑھاتے ہیں اور ان کا پڑھانے کا انداز ایسا ہے کہ بچے بہت جلدی سیکھ جاتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ ظفر پڑھائی کے ساتھ ساتھ بچوں کی کونسلنگ بھی کرتے ہیں تاکہ بچے ابھی سے اپنے مستقبل کے بارے میں غور و فکر کر سکیں۔

ظفر کا کہنا ہے کہ ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد سیر پر جانے یا فون پر مصروف رہنے کے بجائے وہ غریب بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ ان بچوں کو پڑھانے میں مزہ آتا ہے اور یہ ایک مشغلہ بھی ہے۔ ظفر کا کہنا تھا کہ وہ سول سروسز کی تیاری بھی کر رہے ہیں اور ان کا خواب اعلیٰ عہدہ حاصل کرنا ہے۔ ظفر کا کہنا ہے کہ اگر ان کا پڑھایا ہوا ایک بچہ بھی یہاں سے کامیاب ہو جائے تو وہ سمجھیں گے کہ ان کی ہر خواہش پوری ہو گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ علم ایسی دولت ہے، جسے جتنا چاہے بانٹو، یہ کم نہیں ہوتی۔

حقیقی زندگی کا ہیرو: گاؤں جا کر غریب بچوں کو پڑھاتے ہیں پولیس میں کانسٹیبل ظفر علی، آئی پی ایس بننے کا خواب

حقیقی زندگی کا ہیرو: گاؤں جا کر غریب بچوں کو پڑھاتے ہیں پولیس میں کانسٹیبل ظفر علی، آئی پی ایس بننے کا خواب

حقیقی زندگی کا ہیرو: گاؤں جا کر غریب بچوں کو پڑھاتے ہیں پولیس میں کانسٹیبل ظفر علی، آئی پی ایس بننے کا خواب

ظفر نے گورکھپور سے ریاضی میں بی ایس سی کیا ہے۔ اس کے بعد وہ الہ آباد (پریاگ راج) آ گئے جہاں سے انہوں نے ایم ایس سی کیا اور یو پی ایس سی کی تیاری بھی شروع کر دی۔ اس دوران ان کا یو پی پولیس میں انتخاب ہو گیا۔ ظفر کو دو ماہ قبل گونڈہ میں پہلی پوسٹنگ ملی تھی۔ گونڈہ کے ڈی آئی او ایس راکیش کمار کا کہنا تھا کہ محمد ظفر علی نے جو تدریسی اقدام شروع کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ اس سے تحریک لے کر ہمیں آگے آنا چاہیے۔ گونڈہ کے ایس پی آکاش تومر نے بھی محمد ظفر کے اقدام کی تعریف کی ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .