۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
امام حسین علیہ السلام

حوزہ/ حسین فہمی کہ جس کے زیادہ حقدار صاحبان علم ودانش ہیں کہ وہ سید شہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے انقلاب کی ماہیت کا مطالعہ فرمائیں اور پھر اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالیں البتہ یہ مرحلہ اس وقت تک نامکمل ہے جب تک اسلام و قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آحادیث وروایات جو آپ نے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمائیں ہیں اسے نگاہ سے نہ گزارا جائے۔

تحریر: سید مشاہد عالم رضوی

حوزہ نیوز ایجنسی| اس لئے اپنے اندر احساس عزت شرف و سربلندی رکھتے ہیں یہ تو حسین شناس ہونے کا پہلو ہے تو پہلی منزل حسین شناسی ہے اور اس کے بعد دوسری منزل ہے حسین فہمی!

حسین فہمی کی جس کے زیادہ حقدار صاحبان علم ودانش ہیں کہ وہ سید شہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کے انقلاب کی ماہیت کا مطالعہ فرمائیں اور پھر اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالیں البتہ یہ مرحلہ اس وقت تک نامکمل ہے جب تکہ اسلام و قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آحادیث وروایات جو آپ نے سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمائیں ہیں اسے نگاہ سے نہ گزارا جائے۔

حقیقت ابدی ہے مقام شبیری

شھید باقر الصدر امام خمینی اورمطہری جیسے فہیم وذکی اور اجتہادی نظر رکھنے والے عالموں کی نگاہ حق شناس چاہیے اور اقبال جیسے شاعر کے احساس وشعور کی نواخوانی درکار ہے جو حسین وحسینیت کو خود صاحب معاملہ یعنی کاروان عشق کےسیدوسردار حسین علیہ السلام کی نگاہ سے دیکھے تاکہ اسی طرح کربلا انسانوں کے درمیان پہنچے جس طرح خود بانی نہضت کربلا نے اس کی بنا ڈالی ہے اور یہ منزل پہلی منزل سے زیادہ دشوار گزار اور ذمہ داری سے مملو ہے۔
بقول
ڈوب کر پار ہوگیا اسلام
آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے؟
اور اسی نقطۂ نظر سے ذرا فارسی زبان کے ان اشعار پر نگاہ ڈالیں ڈاکٹر محمد اقبال نہایت پر معنی انداز میں کربلا کی تفہیم کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
اللہ اللہ باۓ بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
زندہ حق از قوتِ شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
بحر حق در خاک وخون غلطیدہ است
پس بنائے لا الہ گردیدہ است
تار ما از زخمہ اش لرزان ھنوز
تازہ از تکبیر او ایمان ھنوز
ڈاکٹر محمد اقبال کی نظر میں موجودہ اسلام امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی وشھادت عظمیٰ کا نتیجہ ہے جس سے آج بھی ایمان تازہ ہے اور مسلمانوں کے اندر تحرک وعمل پایا جاتا ہے۔
قول حسین کی گھن گرج
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تھا
فعلی الاسلام السلام اذ قد بلیت الامہ براع مثل یزید۔۔۔
مروان بن حکم جو بنی امیہ کا نمک خوار تھا اس نے امام حسین علیہ السلام سے بیعت یزید کو بھلائی کا راستہ بتاتے ہوئے جب آپ کو حکومت یزید تسلیم کرنے کی نصیحت دی تب آپ نے یہ عہد ساز جملہ فرمایا؛ کہ پھر تو اسلام کا فاتحہ پڑھ دینا چاہیے کہ اسلام کا کرتا دھرتا یزید جیسا شخص قرار دیدیا جائے۔
دوش احمد سے خاک مقتل تک
ابتدا کیا تھی انتہا کیا ہے۔
غور طلب ہے کہ
آپ نے مروان کی نصیحت ٹھکرا دی اور اپنی بیعت اسلام کی بیعت بتائی جس سے صاف ہو جاتا ہے کہ حق و باطل کا مقابلہ تھا اور دو طرز تفکر یعنی اسلام وکفرکی جنگ تھی مسلمانوں کے گردہ پر مسلط کردہ امیر شام کا بیٹایزید اسی خاندان کی اپج تھا جس نے اسلام کو شکست دینے کے لئے دم آخر تک نشانہ لگایا تھا اور اسلام کو مٹانے کی قسم اٹھا رکھی تھی، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔حضرت امام حسین علیہ السلام میراث اسلام اور اس کی معنوی وراثت سے خوب واقف تھے اس لئے قدم قدم پر آپ کو اس بات کا خیال تھا اور آپ کواسی احساس نے مقتل کی طرف خوشی خوشی بڑھنے پر مسلسل تیار کیا یہاں تک کہ آپ راہ خدا میں قربانی دینے کے لئے تسلیم ہوگئے اور دشمن کی فکر باطل سے پردہ اٹھاتے ہوئے دنیا بھر کے آزادی کے متوالوں کو بتلا دیا کہ ابن مرجانہ ۔ یعنی عبیداللہ بن زیاد جسکی ماں مرجانہ بدنام زمانہ عورت تھی۔ نے مجھے ذلت وموت کے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے اور بیعت یزید کی ذلت ورسوائی مجھے چھو بھی نہیں سکتی ۔
ان الدعی وابن الدعی قد رکز بین ثنتین بین السلہ والذلہ وھیھات منا الذلہ۔۔‌۔
میں حسین راہ حق میں جان دے سکتا ہوں مگر یزید جیسے فاسق وفاجر کی بیعت نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ بات سنت الٰہی سے دور خدا و رسول کی پسند سے پرے اور ایمان وحق کی راہ سے الگ طریقہ ہے جس کی اجازت وہ پاک و طاہر گودیاں جس میں میں پروان چڑھا ہوں مجھے نہیں دیتیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی طاہرہ وعذرا بیٹی فاطمہ زہرا کی آغوش کا پالا ہوا ہوں اور آپ کے ابن عم بابا علی مرتضی کی آغوش مہر و محبت میں مدتوں ایمان وایقان کی خوشبو سونگھی ہے اس لئے میرا طیب وطاہر خاندان اورابراہیمی وھاشمی و مطلبی گھرانہ کا پاک و طاہر خون مجھے خداناشناس کفر ونفاق کے پروردہ بنی امیہ کےپلیدونجس گھرانہ کی قربت کو ناپسند ومکروہ جانتاہے لہذا ظالموں کے ساتھ ذلت کی زندگی اور موت کے دوراہے پر شہادت ہی میرا انتخاب نہائی اور یہی میری آخری پسند ہے۔ فرمایا:
موت تو بنی آدم سے ایسے لپٹی ہوئی ہے جیسے دلہن کے گلہ میں ہار ہوتا ہے۔

تیسری منزل:

پیغام حسینی کی اشاعت وتبلیغ ہے ۔یعنی حسین شناسی اور حسین فہمی کے بعد۔ اور یہ وہی کرسکتا ہے جس نے امام حسین کو پہچانا پھر انہیں اور ان کی نہضت کو سمجھ لیا ہے۔ شرط یہ ہے کہ صداقت وامانت داری کا پاس و لحاظ بھی ہو۔
تاریخ انسانیت کا یہ وہ عظیم واقعہ ہے جو مظلومیت و بے کسی کی مثال ہونے کے علاوہ ہر حق پرست وحق پسند کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور انہیں ہر دور میں ظالموں سے ٹکرانے کی طاقت دیتا ہے اور دلوں میں ایمان کی شمع جلاکر بھٹکے ہوئے ضمیروں کو جھنجھوڑ تا ہے اور حریت پسند انسانوں کو علم و آگہی کے ساتھ ساتھ میدان عمل فراہم کرتا ہے جو ہر صدی کے انسانوں کے لئے تجدید بیعت حق کی راہ ہموار کرتا رہے گا۔
شہادت امام حسین اور کارنامہ کربلا اپنے زمانہ وقوع سے لیکر ہر دور اور ہر زمانہ میں چھا گیا جس کی یاد آدمیت کی حیات مبارک کے لئے رزق معنوی کا ایک چشمہ فیاض ہے۔
اس لئے تنہا محرم و صفر کے دو مہینے ہی نہیں بلکہ پوری عمر شہادت جاویدان حسینی کو سمجھنے اور اس کے ہمہ پہلوؤں پر نظر ڈالنے کے لئے درکار ہے، چنانچہ جو امام حسین علیہ السلام کے دریاۓ عشق ومحبت میں ڈوب گیا وہ یقیناً ساحل نجات تک پہنچ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا ارشاد ہے:
ان الحسین مصباح الھدیٰ وسفینہ النجاہ۔۔‌۔
بیشک حسین چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہے
امام حسین آج بھی ہدایت دے رہے ہیں اور لوگوں کو نجات کی طرف دعوت دے رہے ہیں ہم کس قدر ان سے قریب ہیں یا دنیائے انسانیت کس قدر ان کے مشن سے واقف ہے اس کے بارے میں ہمیں جائزہ لینا چاہیئے یہ حسینیوں کا نہایت سادہ سا کام ہوسکتا ہے۔
والسّلام

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .