۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
علامہ ساجد نقوی

حوزہ/ قائد ملت جعفریہ پاکستان: انتہاء پسندی ہی دہشت گردی کی بنیاد، افسوس ملک میں تکفیر کابازار گرم کیاگیا، سینکڑوں افراد تشدد کے باعث شہید ہوئے، مگر آج تک ورثاء کی داد رسی تک نہ کی گئی، پہلے فرد آج ریاستیں غلام۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے واضح کیا ہے کہ مذہبی اعتقادات یا بنیادی عقائد نہیں ،تشریحات مسائل پیدا کرتی ہیں، انتہاءپسندی کی گنجائش کسی بھی معاشرے میں کسی بھی شکل میں نہیں دی جاسکتی،انسان کو آزاد پیدا کیا گیاہے مگر ہر دور میں ایک نئے انداز میں انسان کو غلام بنایاگیا اور بنایاجارہاہے، اب فرد کی جگہ اس سے بھی سخت قوموں اورریاستوں کی غلامی نے لے رکھی ہے، جس نے انسان کے شعور پر حملہ کرکے اس سے سوچنے اور جینے کا حق تک چھین لیا ، دین الٰہی بہترین راستہ جس نے نہ صرف غلامی کی مذمت، اس کے خاتمے کا جواز راستہ فراہم کیا بلکہ انسانیت کی تا قیامت رہنمائی بھی فرمائی۔

ان خیالات کا اظہار انہوںنے یکے بعددیگرے ” دہشت گردی سے متاثرہ افراد، مذہبی اعتقاد کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بننے والے متاثرین اور غلام تجارت کے خاتمے کا دن “ بارے عالمی ایام پر اپنے پیغام میں کیا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ چند روز قبل عالمی یوم انسانیت گزرا مگر آج عالم انسانیت کی حالت کیا ہے خود کو مہذب کہنے والے معاشرے یا ممالک کیا تہذیب یافتہ ہوئے یا مزید ریاستوں کے رویوں کے سبب مزید انتہاءپسندی بڑھی ؟

انہوں نے مزید کہاکہ مذہبی اعتقادات یا بنیادی عقائد ویسے نہیں ہوتے جس طرح ان کی تشریحات و تعبیرات کرکے اور عملی میدان میں اپنے انداز میں نفاذ کی کوشش کی جاتی ہے اور بنیادی عقائد کی تشریح و توجیہ مختلف انداز میں ہونے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ شدت اس حد تک ابھر آتی ہے کہ مخالف نظریہ رکھنے والا نشانہ بنتا ہے اور یہی عمل جسے آج دنیا ”انتہاءپسندی“کا نام دیتی ہے ،عمل میں آتاہے اور اسی سے دہشت گردی جنم لیتی ہے جس کی مہذب دنیا میں کوئی گنجائش نہیں، انسانی معاشرے کی بنیاد باہمی مساوات اور بنیادی حقوق پر سب کا حق کے اہم ترین بیانیہ پر ہے ۔

مگر افسوس پاکستان میں اسی سوچ کے سبب فتوے دیئے گئے پھر ایک عرصہ تک تکفیر کا بازار گرم کیاگیا جس سے تشدد نے جنم لیا اور سینکڑوں خاندان اس سے متاثر ہوئے ، قتل عام میں کئی افراد شہید ہوئے مگر آج تک ان کے قاتل گرفتار ہوئے ، متاثرین کی کوئی داد رسی کی گئی نہ تکفیر کرنیوالے کیفرکردار تک پہنچائے گئے اور آج معاشرے کبھی بابو سر ٹاپ، کبھی ڈی آئی خان، کبھی سانحہ پارا چنار، کبھی سیالکوٹ اور کبھی جڑانوالہ جیسے سانحات کا شکار ہورہاہے ، افسوس ان سانحات کی روک تھام کےلئے کوئی سنجیدہ اقدام اٹھایاگیا نہ سنجیدہ فکر لوگوں کی صدا سنی گئی۔

انہوں نے غلام تجارت کے خاتمے بارے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہاکہ ہر دور میں اسے ایک نئے انداز میں انسان کو غلامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اگرچہ کافی حد تک فرد کی غلامی کے دور کا خاتمہ ہوا، مگر فرد کی غلامی سے سخت قوموں اور ریاستوں کی غلامی نے لے لی ہے، جو پہلے درجے سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ پہلے فرد یا افراد کی خریدو فروخت ہوتی تھی مگر اب نئے انداز میں نئی شکل میں انسانوں کی تجارت صرف لوگوں کے گروہ کی شکل میں نہیں بلکہ ریاستوں اور قوموں کی شکل میں ہورہی ہے ، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سمیت کئی دیگر عالمی ادارے اسی تاک میں بیٹھے ہیں کہ کب کس ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہو اور وہ اپنے پنجے گاڑ ھ کر اس پر مسلط ہوجائیں ۔

انہوں نے آخر میں کہاکہ مساوی انسانی حقوق کی پاسداری ، بین الاقوامی چارٹرز کے صرف پرچار کی بجائے عملی اقدامات تک عالم انسانیت کو غلامی یا غلام تجارت سے نجات دلانا ممکن نہیں ہوگا ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .