حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بارہ بنکی/سیدواڑہ کی مردم خیزسرزمین عالم پور میں واقع مدرسہ جامعہ باب الحوائج کی تعلیمی سرگرمیوں میں گزشتہ دنوں ایک اور باب کا اضافہ ہوا جب ایران کے مفکر اور معروف عالم دین مولانا علی رضا رضائی نے ادارے کا دورہ کیا اور اس کے نظام تعلیم کو مثالی بتاتے ہوئے طلباء اورطالبات کے تعلیمی مظاہرے کی تعریف کی۔
واضح رہے کہ تقریباً 10 برس قبل ضلع بارہ بنکی کے موضع عالم پور(سیدواڑہ) میں امام جمعہ والجماعت مولانا سید محمد مجتبیٰ ’میثم‘ کے ذریعہ قائم کیا گیا دینی مکتب آج ایک بڑے مدرسہ کی شکل اختیار کرچکا ہے جس میں تقریباً پورے سال دینی تعلیم کے فروغ اور ترویج پر مشتمل تعلیمی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ حال ہی میں ایام عزائے فاطمیہ کے کامیاب انعقاد کے بعد مرکز فقہ و فقاہت،لکھنو کے تعاون سے’معارف حضرت فاطمہ زہرا ‘ کے عنوان سے دونشستوں پر مشتمل ایک عظیم الشان پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں عالمی شہرت یافتہ ایرانی عالم دین آقائی علی رضا رضائی اور مولانا محمد مہدی گلریز (لکھنو) سمیت متعدد علماء کرام نے شرکت کی۔
اس موقع پر مدرسہ باب الحوائج کے طلباء و طالبات نے شاندار تعلیمی مظاہرہ کرکے بچوں کو دینی تعلیم کی طرف راغب ہونے کی دعوت دی۔ بتادیں کہ اس تعلیمی مظاہرے میں مدرسہ ہٰذا میں زیر تعلیم اہل حنوب کے دوبچوں نے اپنے مخصوص اندازمیں کلمہ اور دیگر قرآنی سورے پڑھ کر مہمان علماء اور شرکاء کی خوب داد وت حسین حاصل کی۔
مدرسے کی طالبات کے ذریعہ تلاوت قرآن سے پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ پہلی نشست میں مہمان خصوصی کے طور پر آقائی علی رضا رضائی نے خطاب کیا جس میں انہوں نے دینی تعلیم کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ دینی علوم آئمہ اور انبیاءؑ کی مشقت اور جہدو جہد کا ثمرہ ہیں جو ہم تک پہنچے ہیں اس لئے علم کو حاصل کرنے میں ہرگز کوتاہی نہیں ہونا چاہئے خواہ آپ کسی بھی عمرکے پڑاوپر ہوں اس لئے کہ علم وہ ہے کہ جو انسان کو تندرست اور توانا رکھتا ہے۔
مہمان مقرر نے مدرسہ جامعہ باب الحوائج کے حوالے نوجوان عالم دین مولانا محمد مجتبیٰ’میثم‘ کی قیادت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ عالم پور جیسی دیہی بستی میں ایک مدرسے کے ذریعہ بڑے پیمانے پردینی تعلیم کی نشرو اشاعت کرنا بڑا کارنامہ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ آج یہاں چھوٹے چھوٹے طلباء وطالبات کے تعلیمی مظاہرے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدرسہ جامعہ باب الحوائج عملی طور پر اپنے اغراض ومقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں سرگرداں ہے۔
مولانا مجتبیٰ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایرانی مفکر نے اہلیان بستی سے کہا کہ اس نوجوان عالم دین کی تعلیمی مہم میں شامل ہوکر اسے کارواں بنائیں تاکہ یہ علاقہ بھی دینی تعلیم کی روشنی سے روشن ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ اساتیذ اور معلمات طلباء کے لئے خیروبرکت ہیں جوبڑی محنت ومشقت کے ساتھ بچوں کو پڑھا کرایک کامل انسان بناتے ہیں اس لئے بچوں کو چاہئے کہ وہ اساتذہ سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں تاکہ وہ بھی دوسروں کوعلم دے سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر چیزکی زکوٰة ہے اورعلم کی زکوٰة اس کا نشرکرنا ہے اس لئے علم دینے میں کنجوسی نہیں ہونا چاہئے۔ آپ کسی کوعلم دیں گے تواللہ آپ کو مزید علم عطا کرے گا۔ طلباء کو اپنے اخلاق اور کردار کو بہتر بنانے کی تلقین کرتے ہوئے مولاناعلی رضا رضائی نے زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے اورعلوم دینیہ کے حصول پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ اہل بیت نبوہ جب عبادت کرتے تھے تو یہ عرش الہٰی سے متصل ہوجاتے تھے یعنی اہل بیت نبوہ کی عبادت اور اللہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوتی تھی۔ اس لئے جو بھی سیرت فاطمہ زہرا پرعمل کرے گا اور تسبیح فاطمہ زہرا کو خوب پڑھے گا اس کا کرداراوراخلاق بھی نورانی ہوجائے گا اور جہاں جہاں جائے گا برکتیں اور نورانیت لے کرجائے گا۔
ایرانی عالم دین کی فارسی میں کی گئی تقریر کا اردو میں ترجمہ کرنے والے مرکز فقہ و فقاہت کے نمائندہ خاص مولانا محمد مہدی گلریز نے نوجوانوں کو دینی تعلیم کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا میں رائج علوم زیادہ تر کاروباری ہوگئے ہیں اس لئے ان کے حصول میں نفع ونقصان کو پہلے دیکھا جاتا ہے مگرعلوم اہل بیت حاصل کرنے والے افراد دنیاوی نفع ونقصان سے بالاتر ہوکر آخرت کا سامان تیار کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں حالانکہ علوم دینیہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی بہت زیادہ نفع پہنچاتا ہے۔
پروگرام کی دوسری نشست میں مختلف مکاتب کے طلباء و طالبات کے درمیان مباحثے کا سلسلہ شروع ہوا جس میں مدرسہ جامعہ باب الحوائج کے علاوہ مکتب امامیہ علی ابن موسیٰ الرضا ( دیورہ سادات) اور مکتب امامیہ ( سنگورہ) کے بچوں نے حصہ لیا، یہ سلسلہ دیر شام تک جاری رہا اور مدرسے کی نظم کے ساتھ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔
اس موقع پر مدرسہ جامعہ باب الحوائج کے عہدیداران ،معلمات اور طلباء کے علاوہ مولانا مظاہر حسین، سفیر حیدر(پردھان)، محب حسین، ہلال احمد لال میاں، حسن عباس سمیت کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔