۲۷ خرداد ۱۴۰۳ |۹ ذیحجهٔ ۱۴۴۵ | Jun 16, 2024
تجارت

حوزہ/ اے کاروبار اور تجارت کرنے والوں ! پہلے تجارت کے شرعی احکام سیکھو پھر تجارت کرو۔ پہلے تجارت کے شرعی احکام سیکھو پھر تجارت کرو۔ پہلے تجارت کے شرعی احکام سیکھو پھر تجارت کرو۔

انتخاب و ترجمہ: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی|

1۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام

يَا مَعْشَرَ اَلتُّجّارِ الفِقْهَ ثُمَّ المَتْجَرَ، الفِقْهَ ثُمَّ المَتْجَرَ، الفِقْهَ ثُمّ المَتْجَرَ(الکافی: ۵/۱۵۰/۱)

حوزہ/ اے کاروبار اور تجارت کرنے والوں ! پہلے تجارت کے شرعی احکام سیکھو پھر تجارت کرو۔ پہلے تجارت کے شرعی احکام سیکھو پھر تجارت کرو۔ پہلے تجارت کے شرعی احکام سیکھو پھر تجارت کرو۔

2۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام

مَنِ اتَّجَرَ بِغَيْرِ فِقْهٍ فَقَدِ ارْتَطَمَ فِي الرِّبَا (الکافی: ۵/۱۵۰/۱. نهج‌البلاغه، کلمات قصار، حکمت ۴۴۷)

جس نے فقہی احکام سیکھے بغیر تجارت کی وہ سود (حرام) میں پڑ جائے گا۔

3۔ إِذَا طافَ فِي الأَسْوَاقِ وَ وَعَظَهُمْ: يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ قَدِّمُوا الاِسْتِخارَةَ وَ تَبَرَّكُوا بِالسُّهُولَةِ وَ اقْتَرِبُوا مِنَ اَلْمُتَبایِعَيْنَ وَ تَزَيَّنُوا بِالْحِلْمِ وَ تَنَاهَوْا عَنِ الْيَمِينِ وَ جَانِبُوا الْكَذِبَ وَ تَجَافَوْا عَنِ الظُّلْمِ وَ أَنْصِفُوا الْمَظْلُومِينَ وَ لاَ تَقْرَبُوا الرِّبَا «وَ أَوْفُوا الْكَيْلَ وَ الْمِيْزانَ وَ لا تَبْخَسُوا النّاسَ أَشْيائَهُمْ وَ لا تَعْثَوْا فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ۔ (بحارالانوار ج۵۴/۷۸)

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام بازار کا گشت کرتے وقت تجارت کرنے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے: ائے تجارت کرنے والو! اپنے کام کی ابتدا اللہ سے خیر طلب کر کے کرو، (کارو بار میں ) سہولت فراہم کرتے ہوئے برکت حاصل کرو، (بہترین اخلاق کے ذریعہ ) خریدنے والوں سے قریب ہو۔ خود کو حِلم اور بردباری سے آراستہ کرو، قسم کھانے سے پرہیز کرو، جھوٹ سے دور رہو، ظلم وستم سے کنارہ کش رہو، مظلوموں کے حق کو ادا کرو، سود کے قریب نہ جاؤ، ناپنے تولنے میں وفا دار رہو، کم نہ تولو اور زمین پر فساد نہ کرو۔

4۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام

وَ لا تِجَارَةَ کَالْعَمَلِ الصَّالِحِ وَ لا رِبْحَ کَالثَّوَابٍ (بحارالانوار: ۶۹/۴۰۹/۱۲۲)

عمل صالح سے بڑھ کر کوئی تجارت نہیں اور ثواب جیسا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ

ظُلمُ الأجيرِ أجرَهُ مِنَ الكَبائِرِ (من لایحضره الفقیه ج۴، ص۱۰)

مزدور کی اجرت (مزدوری) میں کمی کرنا گناہان کبیرہ میں سے ہے۔

6۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام

نَهى رَسُولُ الله(ص) أن يُسْتَعمَلَ أجيرٌ حَتّى يُعلَمَ ما اُجرَتُهُ. (الکافی: ۵/۱۴۸/۱)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا کہ مزدور سے اس وقت تک کام نہ لو جب تک کہ اس کی مزدوری نہ طے کر دو۔

7۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام

تَعَرَّضوا للتِّجاراتِ، فإنّ لَکُم فيها غِنىً لَكُم عَمّا في أيْدي النّاسِ، وإنّ اللهَ عزّوجلّ يُحِبُّ المُحْتَرِفَ الأمینَ۔ (وسائل الشیعة: ۱۲/۴/۶)

تجارت کرو کہ یہ تمہیں دوسروں کے مال سے بے نیاز کر دے گا، بے شک خدا وند عالم امانتداری سے کاروبار کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔

8۔ امام جعفر صادق علیہ السلام

لا یکونُ الوفاءُ حتّی یَمیلَ المِیزانُ. (الکافی: ۵/۱۵۹/۱)

(سامان تولنے میں ) وفا نہیں ہوتی یہاں تک (سامان والا پلہ ) جھک جائے۔

9۔ امام جعفر صادق علیہ السلام

إنّ الله تبارکَ و تعالی لَیُبْغِضُ المُنَفِّق سِلْعتَهُ بالإیْمانِ (امالی صدوق: ۵۷۱/۷۷۵)

بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ اس سامان بیچنے والے سے نفرت کرتا ہے جو قسم کھا کر سامان بیچتا ہے۔

10۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ

رَحِمَ اللهُ عبدا سَمْحا إِذَا بَاعَ، سَمْحا إِذَا اشْتَرَى، سَمْحا إِذَا قضى، سَمْحا إذا اقْتَضی. (کنزالعمال ۹۴۵۳)

خدا اس بندے پر رحم کرے جو خرید و فروخت اور قرض اتارنے اور واپس لینے میں آسان ہو۔

11۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ

یا علیُّ، لا تُماکِسْ فی أربَعةِ أشیاءَ: فی شِراءِ الأُضْحِیّةِ، والکفَنِ، والنَّسَمةِ، والکَرْیِ إلی مَکّةَ ۔ (الخصال: ۲۴۵/۱۰۳)

ائے علیؑ! چار چیزوں میں مول بھاؤ نہ کرو: قربانی کا جانور خریدنے میں، کفن خریدنے میں، غلام خریدنے میں اور مکہ (جانے میں ) کرایہ میں۔

12۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام

أيُّما رجُلٍ اشْتَرى طَعاما فكَبسَهُ أربَعينَ صَباحا يُريدُ بِهِ غَلاءَ المُسلِمينَ، ثُمَّ باعَهُ فتَصدّقَ بثَمنِهِ لَم يَكُنْ کَفّارَةً لِما صَنَعَ. امالی شیخ طوسیؒ صفحہ۶۷۶)

جو بھی کھانے کا سامان خرید کر چالیس دن تک ذخیرہ کرے تا کہ مسلمانوں کو مہنگی قیمت پر بیچے ۔ اس کے بعد اسے بیچ کر ساری آمدنی صدقہ کر دے تب بھی اس کے گناہوں کا کفارہ نہیں ہو گا۔

13۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ

بِئسَ العَبدُ المُحتَكِرُ، إنْ أرْخَصَ اللّه ُ تعالی الأسْعارَ حَزِنَ، وإنْ أغْلاها اللّه ُ فَرِحَ. (نهج الفصاحه صفحہ ۳۷۱، حدیث ۱۰۷۹)

ذخیرہ اندوزی کرنے والا کتنا برا انسان ہے کہ جب اللہ قیمتوں کو کم کرتا ہے تو یہ غمگین ہو جاتا ہے اور جب مہنگا کر دے تو خوش ہو جاتا ہے۔

14۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ

المُحتَکِرُ فی سُوقِنا کالمُلْحِدِ فی کِتابِ الله ( نهج الفصاحه ص ۴۳۲، ح ۱۳۱۷)

ہمارے (مسلمانوں کے) بازاروں میں محتکر(کھانے کا سامان خرید کر اس لئے ذخیرہ کرے تا کہ بعد میں مہنگی قیمت پر بیچے)ویسے ہی ہے جیسے کتاب خدا میں ملحد ہے۔

15۔ امام جعفر صادق علیہ السلام

كُلُّ حُكْرَةٍ تَضُرُّ بِالنَّاسِ وَ تَغْلِي اَلسِّعْرَ عَلَيْهِمْ فَلا خَيْرَ فِيهَا (دعائم الاسلام جلد۲، صفحہ۳۵، حدیث۷۸)

ہر وہ ذخیرہ اندوزی جو لوگوں کو نقصان پہنچائے اور قیمت کو مہنگا کرے تو اس میں کوئی خیر و نیکی نہیں ہے۔

16۔ امام علی نقی علیہ السلام

إِنَّ الْحَرَامَ لاَ يَنْمِي وَ إِنْ نَمَى لاَ يُبَارَكُ لَهُ فِيهِ وَ مَا أَنْفَقَهُ لَمْ يُؤْجَرْ عَلَيْهِ وَ مَا خَلَّفَهُ كَانَ زَادَهُ إِلَى النَّارِ (کافی، جلد۵، صفحہ۱۲۵، حدیث۷)

بے شک حرام میں اضافہ نہیں ہوتا، اگر اضافہ ہو بھی جائے تو اس میں برکت نہیں ہوتی، اگر اسے (نیک کاموں میں ) خرچ کیا جائے تو ثواب نہیں ملتا اور اگر بچا رہے تو جہنم جانے کا زاد راہ ہے۔

17۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام

إِذَا أَرادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُسْتَجابَ لَهُ فَلْيُطَيِّبْ كَسْبَهُ وَ لْيَخْرُجْ مِنْ مَظَالِمِ النَّاسِ، وَ إِنَّ اللهَ لاَ يُرْفَعُ إِلَيْهِ دُعاءُ عَبْدٍ وَ فِي بَطْنِهِ حَرامٌ أَوْ عِنْدَهُ مَظْلِمَةٌ لِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ ( بحارالأنوار ، جلد۹۰، صفحہ۳۲۱، حدیث۳۱. کافی، جلد۵، صفحہ۱۲۵، حدیث۷)

جو چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو اسے چاہئیے کہ اپنی آمدنی پاک کرے اور لوگوں کے حقوق ادا کرے، کیوں کہ اللہ اس بندہ کی دعا قبول نہیں کرتا جس کا پیٹ مال حرام سے بھرا ہو یا اس پر کسی بندہ کا حق ہو۔

18۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام

لاِنْ اُقْرِضَ قَرْضا اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اَصِلَ بِمِثْلِهِ (بحارالأنوار، جلد۱۰۰، صفحہ۱۳۹، حدیث۵)

کیوں کہ مال قرض دینا مجھے مال بخشنے سے زیادہ پسند ہے۔

19۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام

اِعْلَمْ أَنَّهُ مَنِ اسْتَدَانَ دَيْناً وَ نَوَى قَضاءَهُ، فَهُوَ فِي أَمانِ اللهِ حَتّى يَقْضِيَهُ، فَإِنْ لَمْ يَنْوِ قَضاءَهُ فَهُوَ سارِقٌ ( فقه الرضا صفحہ ۲۶۸. کافی، جلد۵، صفحہ۱۲۵، حدیث ۷)

جان لو کہ جس نے قرض لیا اور اس کی ادا کرنے کی نیت ہے تو وہ اس وقت تک اللہ کی امان (حفاظت) میں ہے جب تک قرض ادا نہ کر دے، اور جس نے قرض ادا کرنے کی نیت نہیں کی وہ چور ہے۔

20۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ

مَن أقْرَضَ مَلْهوفا فَأحْسَنَ طِلْبَتَهُ اسْتَأنَفَ الْعَمَلَ وَ أعْطاهُ الله بِكُلِّ دِرْهَمٍ ألفَ قِنْطارٍ مِنَ الْجَنَّةِ ( ثواب الاعمال و عقاب الاعمال صفحہ۲۸۹. کافی، جلد۵، صفحہ ۱۲۵، حدیث۷)

جو کسی پریشان حال کو قرض دیتا ہے اور واپس لینے میں نیکی سے برتاؤ کرتا ہے (سہولت دیتا ہے ) تو اللہ اسے جنت میں ہر درہم کے بدلے ہزار قنطار (بہت زیادہ مال و دولت) عطا کرے گا۔

21۔ امام علی نقی علیہ السلام

اَلنّاسُ فِی الدُّنْیا بِالاَمْوالِ وَ فِی الآخِرَةِ بِالأعْمالِ ( بحارالأنوار، جلد۷۸، صفحہ۳۶۸، حدیث۳)

دنیا میں لوگوں کا اعتبار مال سے ہے اور آخرت میں اعمال سے ہے۔

22۔ امام جعفر صادق علیہ السلام

إيّاكَ وَ الضَّجَرَ وَالْكَسَلَ، إنَّهُما مِفْتاحُ كُلِّ سُوءٍ؛ اِنَّهُ مَنْ كَسَلَ لَمْ يُؤَدِّ حَقّاً وَ مَنْ ضَجِرَ لَمْ يَصْبِرْ عَلى حَقٍّ. ( وسائل الشیعه، جلد۴، صفحہ۱۰۵)

ضرورت سے زیادہ کام اور زیادہ مشقت سے پرہیز کرو اور سستی اور کاہلی سے بچو۔ یہ دونوں تمام برائیوں اور بدبختیوں کی کنجی ہیں، کیونکہ سست اور کاہل لوگ کام کرنے میں حق ادا نہیں کرتے اور ضرورت سے زیادہ مشقت کرنے والے حق کی سرحد پر صبر نہیں کرتے بلکہ اس سے آگے نکل جاتے ہیں۔

23۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ

حُرْمَةُ مالِهِ کَحُرْمَةِ دَمِهِ. (اصول کافی، باب سباب المؤمن، جلد۲، صفحہ ۲۶۸)

مسلمان کا مال اس کے خون کی طرح محترم ہے۔

24۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ

حُوسِبَ رَجُلٌ مِمَّنْ كانَ قَبْلَكُمْ فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مِنَ الخَيْرِ شَيْءٌ إلاّ أنَّهُ كانَ رَجُلاً مُوسِرَاً؛ وَکانَ يُخَالِطُ النَّاسَ؛ وَكانَ يأمُرُ غِلْمَانَهُ أنْ يَتَجَاوَزُوْا عَنِ المُعْسِرِ. فَقَالَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ لِمَلائِکَتِه: نَحْنُ أحَقُّ بِذلِكَ مِنْهُ؛ تَجَاوَزُوْا عَنْهُ؛ (نهج الفصاحه و مجموعة ورام: ۲/۲۶۶)

تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کا حساب لیا گیا تو اس میں نیکی نہیں پائی گئی ، سوائے اس کے کہ وہ ایک امیر آدمی تھا اور لوگوں سے گھل مل جاتا تھا۔ وہ اپنے غلاموں کو حکم دیتا تھا کہ ضرورت مندوں (کے قرضوں) کو نظر انداز کریں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے فرمایا: ہم اس سے زیادہ اس کے حقدار ہیں۔ تم اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز کر دو۔

25۔ امام جعفر صادق علیہ السلام

مَنْ طَلَبَ التِّجارَةَ اِستَغْنَی عَنِ النّاسِ؛ (وسائل الشیعه، جلد۱۷، صفحہ۱۲)

جس نے تجارت کی وہ لوگوں سے بے نیاز ہو گیا۔

26۔ امام جعفر صادق علیہ السلام

مَنْ طَلَبَ الدُّنْيا اِسْتِعْفافاً عَنِ النّاسِ وَ سَعْياً عَلى أهْلِهِ وَ تَعَطُّفاً عَلى جارِهِ لَقَى اللهَ عَزَّوَجَلَّ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَ وَجْهُهُ مِثْلُ الْقَمَرِ لَيْلَ الْبَدْرِ. (وسائل الشیعه، جلد۱۷، صفحہ۲۱)

جو شخص لوگوں سے اپنی عزت بچانے، اپنے گھر والوں کو وسعت دینے اور اپنے پڑوسیوں کی مدد کرنے کے لئے دنیا کا طالب ہو تو جب وہ اللہ سے ملے گا تو اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمکے گا۔

27۔ امام جعفر صادق علیہ السلام

كُلُّ ذِي صَناعَةٍ مُضطَرٍّ إلى ثَلاثِ خِصالٍ يَحْتَلِبُ بِهَا الْكَسْبَ: و هُوَ أن يَكُونَ حاذِقاً بِعِلْمٍ مُؤَدِّياً لِلأمانَةِ فِيهِ، مُسْتَميلاً لِمَنِ اسْتَعمَلَهُ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۲۳۵)

ہر وہ شخص جو ہنر مند (اہل فن) ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ تین خوبیوں کا حامل ہو جس سے وہ پیسہ کما سکتا ہے: وہ اس علم میں ماہر ہو، وہ امانت دار ہو اور جس کے لئے کام کرے اس سے حُسن سلوک کرے۔

28۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ

اَلْعِبادَةُ عَشَرةُ اَجْزاءٍ تِسْعَةٌ مِنْها فی طَلَبِ الْحَلالِ؛ (مستدرک الوسائل جلد۱۳، صفحہ۱۲)

عبادتوں کے دس حصے ہیں جن میں سے نو رزق حلال حاصل کرنے میں ہیں۔

29۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ

خَیرُ الکَسبِ کَسبُ یَدَیِ العامِلِ إذا نَصَحَ ( جامع الأحادیث للقمّی: ۷۶)

بہترین کمائی اس کی ہے جو اپنے کام میں سچا اور مخلص ہو۔

30۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ

مَن أکَلَ مِن کَدِّ یَدِهِ، مَرِّ عَلَی الصِّراطِ کالبَرقِ الخاطِفِ؛ (جامع الأخبار /۳۹۰/۱۰۸۵)

جو اپنے بازووں کی مشقت کی کمائی سے کھائے گا وہ بجلی کی طرح پل صراط کے اوپر سے گزر جائے گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .