۱۰ تیر ۱۴۰۳ |۲۳ ذیحجهٔ ۱۴۴۵ | Jun 30, 2024
آیت الله محمدجواد فاضل لنکرانی

حوزہ / مرکز فقہی ائمہ اطہار (ع) کے سربراہ نے کہا: حدیث غدیر کی سند فریقین کے درمیان تواتر سے ملتی ہے اور اس حدیث میں بہت سے شواہد کے ساتھ لفظ "مولا" کا معنی "دوستی" کے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ  پیغمبر اکرم (ص) اس حالت میں لوگوں کو علی علیہ السلام سے "دوستی" کرنے کا حکم دیں۔ خطبہ کے شروع سے آخر تک امیر المومنین علیہ السلام کی جانشینی اور حکمرانی کا مسئلہ مطرح کیا گیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، مرکز فقہی ائمہ اطہار (ع) کے سربراہ آیت اللہ محمد جواد فاضل لنکرانی نے غدیر عید کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ غدیر کے بارے میں بعض اہم نکات کی جنانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم غدیر کو نہ صرف تفرقہ کا موجب نہیں سمجھتے بلکہ اسے اتحاد کا محور قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا: حدیث غدیر کی سند فریقین کے درمیان تواتر سے ملتی ہے اور اس حدیث میں بہت سے شواہد کے ساتھ لفظ "مولا" کا معنی "دوستی" کے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پیغمبر اکرم (ص) اس حالت میں لوگوں کو علی علیہ السلام سے "دوستی" کرنے کا حکم دیں۔ خطبہ کے شروع سے آخر تک امیر المومنین علیہ السلام کی جانشینی اور حکمرانی کا مسئلہ مطرح کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا: شیعہ اور سنی دونوں نے اپنی معتبر کتب میں حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔ شیعہ کتب میں یہ خطبہ امام باقر علیہ السلام سے بھی منقول ہوا ہے اور زید بن ارقم، حذیفہ بن یمان سے بھی۔

آیت اللہ محمد جواد فاضل لنکرانی نے کہا: مرحوم علامہ امینی رہ نے اس خطبہ کی تمام اسناد کو اپنی کتاب "الغدیر" میں ذکر کیا ہے۔ لہٰذا یہ خطبہ سند کے اعتبار سے بالکل واضح ہے اور اہل علم کی نظر میں بغیر کسی اشکال کے ہے۔ خود حدیث غدیر بالخصوص یہ حصہ "من کنت مولاه فهذا علی مولاه" رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متواتر ترین کلمات میں سے ایک ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .