۱۸ شهریور ۱۴۰۳ |۴ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 8, 2024
News ID: 400690
17 جولائی 2024 - 11:50
سکندر علی بہشتی

حوزہ/عزاداری سمیت مختلف مسائل کے بارے میں لوگوں کا اختلاف نظر ایک قدرتی عمل ہے۔جب معاشرے میں دین ومذہب علما و مراجع کے بجائے عوام کے ہاتھ میں آتے ہیں تو بے ہنگم اور نئی رسومات جنم لیتی ہیں۔

تحریر: سکندر علی بہشتی

حوزہ نیوز ایجنسی| عزاداری سمیت مختلف مسائل کے بارے میں لوگوں کا اختلاف نظر ایک قدرتی عمل ہے۔جب معاشرے میں دین ومذہب علما و مراجع کے بجائے عوام کے ہاتھ میں آتے ہیں تو بے ہنگم اور نئی رسومات جنم لیتی ہیں۔

اس بارے میں اہل علم کاموقف تین حالتوں سے خالی نہیں ہوتا۔

1.بعض علمی شخصیات خاموشی اختیار کرتی ہیں،

2.بعض علما ان تمام رسومات کی حمایت کرتے ہیں۔

3.بعض علما اصلاحی نقطہ نظر اختیار کرتے ہوئے ان پر تنقید اور عزاداری وغیرہ کو ان رسومات سے پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان میں سے کون سا نقطہ نظر درست ہے؟

یہ اپنی جگہ قابل بحث ہے۔ لیکن ایک اہم نکتے کی جانب توجہ رکھنا ضروری ہے۔وہ یہ کہ دینی مسائل کے بارے میں اختلاف کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ ائمہ معصومین کے دور سے ہی مختلف اعتقادی،فکری اور تاریخی مسائل پر اختلاف ہوتا رہا ہے۔

ایسے موقع پر الزام تراشی،تہمت طرازی ،توہین،نفرت آمیز بیانات،مناظراتی روش اور اپنے موقف کے حق میں کمزور دلائل پر استناد کسی بھی صورت نہ دین و مکتب کے حق میں مفید ہیں نہ معاشرے میں مومنین کے لیے فائدہ مند۔

ہمیں قرآن کریم،انبیائے کرام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے طرز عمل اور ان کی سیرت کو دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے اختلاف نظر کی صورت میں اور مختلف نظریات کے مقابلے میں کیا حکمت عملی اور طریقہ کار اختیار کیا ہے۔

مد مقابل فریق کی توہین و تضحیک اور عوامی جذبات ابھارنے سے نہ شبہات و اعتراضات ختم ہوتے ہیں نہ معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے بلکہ نفرتوں کو مزید ہوا ملتی ہے۔ بنا برایں معقول اور درست طرز عمل یہ ہے کہ ایسے مسائل میں قرآن کریم، سیرت و سنت معصومین اور عقلی دلائل کی بنیاد پر نیز مستند فقہا و علما اور محققین کے افکار کی روشنی میں عوام خصوصا جوانوں اور دانشوروں کے ذہنوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے۔

آیت اللہ محسن امین،استاد شہید مرتضیٰ مطہری،شہید بہشتی،رہبر انقلاب اور دیگر فکری ،علمی واصلاحی شخصیات نے یہی طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ ہمارے لیے بھی بہترین حکمت عملی یہی ہے۔

مکتب اہل بیت عقل و منطق اور دلیل کا مذہب ہے۔ یہ مکتب فکر اپنی حقانیت اور منطقی دلائل کی بنا پر داخلی وخارجی مشکلات کے باوجود زندہ رہاہے۔

آئمہ معصومین نے الحاد،کفر اور شرک پر مشتمل معاشرتی مسائل کا علمی۔ عقلی اور منطقی انداز میں جواب دیاہے۔

اختلاف نظر رکھنے والے علما وبزرگان کو چاہیے کہ باہمی احترام اور دوستی پر مبنی ماحول میں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھیں، گفتگو کریں اور مضبوط دلائل سے قانع کرنے کی کوشش کریں اور اصلاحی طریقہ کار اختیار کریں۔

آج کے جدید معاشرے میں تعلیم،میڈیا اور مختلف افکار و نظریات سے آشنائی کی وجہ سے مختلف قسم کے سوالات پیدا ہورہے ہیں اور شکوک شبہات جنم لے رہے ہیں۔اکثر جوانان ملت ان سوالوں کے قانع کنندہ جوابات چاہتے ہیں۔

اب علما کی ذمہ داری ہے عقل و منطق اور علمی دلایل کے ذریعے جدید شبہات کا مدلل جواب دے کر جوانوں کو مطمئن کریں۔

اس منطقی روش کی بجائے فقط توہین کی روش اختیار کرنے سے اختلافات میں اضافے کے ساتھ دین مخالف گروہوں کو مزید پنپنے کا موقع ملے گا جس کا نقصان دین ومذہب کوہی ہوگا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .