۱۶ مهر ۱۴۰۳ |۳ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 7, 2024
عطر قرآن

حوزہ/ آیت کا بنیادی پیغام یتیموں کے حقوق کے تحفظ اور سماجی انصاف کی اہمیت ہے۔ اس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں کمزوروں کے حقوق کی حفاظت اس کے اہل ایمان ہونے کی نشانی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا. سورۃ النساء: آیت ۹

ترجمہ: اور ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ خود اپنے بعد ضعیف و ناتواں اولاد چھوڑ جاتے تو کس قدر پریشان ہوتے لہذا خدا سے ڈریں اور سیدھی سیدھی گفتگو کریں۔

موضوع:

یہ آیت مومنوں کو ان کے بعد چھوڑے جانے والے یتیموں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی فلاح و بہبود کے حوالے سے تنبیہ کرتی ہے۔

پس منظر:

یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں کو جنگوں اور مشکلات کے باعث اپنی وفات کے بعد یتیم بچوں کی ذمہ داریوں کے بارے میں فکر لاحق ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت دی کہ وہ خود کو ان بچوں کے والدین کی جگہ پر رکھ کر سوچیں اور یتیموں کے ساتھ ایسے ہی حسنِ سلوک اور انصاف کا مظاہرہ کریں جیسے وہ اپنے بچوں کے لیے پسند کرتے ہیں۔

تفسیر:

آیت میں اللہ نے اہل ایمان کو تاکید کی ہے کہ وہ یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کریں اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں۔ جب وہ اپنی زندگی کے بعد اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ یتیموں کے لیے بھی وہی فکرمندی رکھیں۔ آیت کا پیغام یہ ہے کہ مومنوں کو تقویٰ اختیار کرنا چاہیے، یعنی اللہ سے ڈرتے ہوئے انصاف اور سچائی پر مبنی بات کرنی چاہیے، جو یتیموں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دے سکے۔

اہم نکات:

  1. خوف خدا اور تقویٰ کی تاکید: آیت کے آغاز میں اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں اور تقویٰ اختیار کریں۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یتیموں کے حقوق کی حفاظت محض انسانی ہمدردی کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی فریضہ ہے جو خوف خدا اور تقویٰ کے تحت انجام دیا جانا چاہیے۔
  2. قولِ سدید (سچی اور سیدھی بات) کا حکم: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سیدھی اور درست بات کریں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ یتیموں کے معاملات میں انصاف پسندی، صداقت اور سچائی کے ساتھ عمل کیا جائے، اور کوئی ایسی بات یا عمل نہ کیا جائے جو ان کے حقوق کو نقصان پہنچائے۔
  3. معاشرتی ذمہ داری کا شعور: آیت میں ایک اہم سماجی پیغام بھی موجود ہے کہ معاشرہ صرف اپنے بچوں کی فکر نہ کرے بلکہ یتیموں اور کمزوروں کی دیکھ بھال کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھے۔ اس طرح کا معاشرہ جو اپنے کمزور اور ناتواں افراد کی دیکھ بھال کرتا ہے، وہی حقیقی معنوں میں اسلامی معاشرہ کہلانے کا حقدار ہے۔
  4. مستقبل کی فکر: اللہ تعالیٰ نے یہاں انسانی نفسیات کو بھی سامنے رکھا ہے۔ جب انسان اپنی اولاد کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوتا ہے، تو اس کا فرض ہے کہ وہ یتیم بچوں کے مستقبل کی فکر بھی اسی طرح کرے، کیونکہ وہ بھی معاشرے کا حصہ ہیں اور ان کا بھی حق ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔

نتیجہ:

یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اسلامی معاشرت کا اصل حسن یتیموں اور کمزوروں کے حقوق کے تحفظ میں مضمر ہے۔ اگر ہر فرد اپنے تقویٰ کے تحت ان حقوق کی پاسداری کرے تو معاشرہ حقیقی معنوں میں عدل و انصاف کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر راہنما، سورہ النساء

تبصرہ ارسال

You are replying to: .