بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا. سورۃ النساء: آیت ۱۰
ترجمہ: جو لوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کا مال کھاجاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھررہے ہیں اور عنقریب واصل جہّنم ہوں گے۔
موضوع:
اس آیت کا موضوع یتیموں کے مال کی حفاظت اور ان کے حقوق کا احترام ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں انتباہ کرتی ہے جو یتیموں کے مال کو ناحق کھاتے ہیں اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
پس منظر:
یہ آیت مدینہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی جب معاشرتی زندگی میں یتیموں کے حقوق کو محفوظ بنانے کی ضرورت تھی۔ عرب معاشرے میں یتیموں کے ساتھ بدسلوکی ایک عام مسئلہ تھا، اور اسلام نے ان کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے متعدد احکامات نازل کیے۔
تفسیر:
1. ناحق کھانے کی مذمت: آیت میں واضح کیا گیا ہے کہ یتیموں کے مال کو ناحق کھانے والے دراصل اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں۔ یہ ایک تشبیہ ہے جس سے مراد ہے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں نقصان اٹھائیں گے۔
2. آخرت کی سزا: جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں، انہیں آخرت میں سخت سزا دی جائے گی۔ "سعیر" کا لفظ جہنم کی آگ کے لئے استعمال ہوا ہے، جس کی شدت کا ذکر قرآن مجید میں بار بار ہوا ہے۔
3. اسلامی معاشرتی انصاف: اس آیت کے ذریعے اللہ نے معاشرتی انصاف کو فروغ دینے کی ہدایت کی ہے اور یتیموں کے حقوق کی حفاظت کے لئے لوگوں کو خبردار کیا ہے۔
اہم نکات:
• یتیموں کے مال کا غلط استعمال نہ صرف دنیا میں ایک جرم ہے بلکہ آخرت میں بھی اس کی سخت سزا ہے۔
• اسلام میں یتیموں کے حقوق کی خصوصی اہمیت ہے، اور ان کے مال کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
• یہ آیت ہمیں معاشرتی انصاف، اخلاقیات، اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
نتیجہ:
سورۃ النساء کی یہ آیت معاشرتی انصاف کے قیام کے لئے ایک اہم اصول فراہم کرتی ہے، جو لوگوں کو یتیموں کے حقوق کا احترام کرنے اور ان کے مال کو ناحق استعمال کرنے سے بچنے کی تنبیہ کرتی ہے۔ یہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ معاشرتی ذمہ داریوں کو پورا کرنا اور کمزور طبقوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ایمان کا ایک لازمی حصہ ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راہنما، سورہ النساء