۲۷ مهر ۱۴۰۳ |۱۴ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 18, 2024
مولانا منظور علی نقوی

حوزہ/ کلمہ طیبہ کے عملی ہونے کے لیے "حیات طیبہ" درکار ہوتی ہے، اور یہ ہر ایک کو بآسانی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ولایت اہل بیت علیہم السلام سے قلوب کو منور کرنا ضروری ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حرم مطہر حضرت معصومہ قم کی مسجد اعظم شبستان ابو طالب میں شہید سید حسن نصر اللہ کی مجلس ایصال ثواب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سید منظور علی نقوی امروہوی نے عنوان "حزب اللہ شجرہ طیبہ ہے" پر روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ عنوان حقیقت پر مبنی ہے، جس میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔

مولانا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شجرہ طیبہ کا درجہ حاصل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، بلکہ اس کے لیے ایک خاص روحانی کیفیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ تک پہنچنے کے لیے انسان کے وجود میں "کلمہ طیبہ" کا عملی ہونا ضروری ہے۔ جب تک خداوند متعال کی وحدانیت، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت کا اثر انسان کے کردار و اعمال میں ظاہر نہ ہو، وہ شجرہ طیبہ کا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔

مولانا منظور علی نقوی نے کہا کہ کلمہ طیبہ کے عملی ہونے کے لیے "حیات طیبہ" درکار ہوتی ہے، اور یہ ہر ایک کو بآسانی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ولایت اہل بیت علیہم السلام سے قلوب کو منور کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حیوانی حیات تو موت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے، لیکن "حیات طیبہ" موت کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔ حیات طیبہ رکھنے والے زندہ دل انسان، دنیا میں محبت اور امن کی حیات بخش دیتے ہیں، اور ان کے اثرات زمان و مکان کی حدود سے آزاد ہوتے ہیں۔

انہوں نے شہید سید حسن نصر اللہ کی شخصیت کو حیات طیبہ کا عملی نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نہ جانے کتنے مردہ دلوں کو زندہ کیا۔ شہید نصر اللہ کی یہ حیات طیبہ آج بھی دنیا کے سامنے ایک روشن چراغ کی مانند ہے، اور وہ لوگ جو پہلے ان کے نام سے بھی واقف نہیں تھے، آج ان کی زندگی کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مولانا نقوی نے کہا کہ حزب اللہ کو شجرہ طیبہ کہنے کی وجہ یہی ہے کہ یہ جماعت اپنے آپ کو کلمہ طیبہ اور حیات طیبہ سے آراستہ کیے ہوئے ہے۔ ان کے مطابق دشمن جب شہید کرتا ہے تو اسے اپنی فتح کا گمان ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ اپنی شکست کی بنیاد رکھ رہا ہوتا ہے۔ حیات طیبہ رکھنے والا ہر شخص اللہ کی رضا اور مرضی کی جستجو میں رہتا ہے اور اس کی خواہش صرف یہی ہوتی ہے کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی مرضی کے مطابق ہو۔

آخر میں مولانا سید منظور علی نقوی نے دعا کی کہ خداوند متعال ہمیں بھی حیات طیبہ کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم بھی اس روحانی مقام تک پہنچ سکیں جس پر اللہ کے خاص بندے فائز ہوتے ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .